ہر سال چودہ فروری کو پوری دنیا میں ”ویلنٹائن ڈے (یعنی محبت کا دن) منایا جاتا ہے جس کے تحت کئی قسم کی بے حیائی کے کاموں کو انجام دیا جاتا ہے۔ غیر اقوام کے ساتھ ساتھ مسلم نوجوان بھی اس میں ملوث ہوتے جارہے ہیں۔ مغربی تہذیب کو اپنانے میں فخر محسوس کررہے ہیں۔
اللہ سبحانہ نے زندگی گزارنے کا ایک پاکیزہ طریقہ انسانیت کو دیا ہے، جسمانی پاکیزگی کے ساتھ روحانی پاکیزگی کی بھی وہ تعلیم دیتا ہے، انسان کا ظاہر بھی پاک ہو اور باطن بھی، جسم بھی پاک ہو اور لباس بھی، معاشی نظام بھی پاک ہو اور معاشرت بھی۔
معاشرت کی پاکی کیلئے جو قوانین اسلام نے دیئے ہیں ان میں مرد و عورت کے صنفی تعلق کی پاکی کیلئے نکاح کا جائز راستہ بتایا ہے۔
انسان کو اللہ سبحانہ نے جہاں بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے وہیں ان نعمتوں کے استعمال کی جائز راہ بھی دکھائی ہے، انسان کو بہت سی قوتیں بخشی گئی ہیں، ان قوتوں میں ایک قوت قوائے شہوانی بھی ہے۔ نکاح کے ذریعہ اس قوت کا استعمال ایک عظیم مقصد کیلئے رکھا گیا ہے، جس سے ایک خاندانی نظام کی بنیاد قائم ہوتی ہے اور جس سے نسل انسانی کا تحفظ ہوتا ہے، اس پاکیزہ قوت کو غلط راستے پر لے جانے سے انسانوں کو بچانے کیلئے اللہ سبحانہ نے انسانوں کے اندر”حیاء “کی صفت رکھی ہے۔اور اس صفت حیاء کو ایمان کا ایک اہم شعبہ قرار دیا ہے، اسلام میں حیاء کا تصور بہت اعلی اور بڑا وسیع ہے، جو انسانی زندگی کے سارے شعبوں کو محیط ہے،یعنی اللہ سبحانہ نے انسانوں کو جو احکامات دیئے ہیں ان کے آگے سر تسلیم خم کیا جائے اور پوری بشاشت قلبی کے ساتھ ان احکامات کی تعمیل کی جائے۔
جن چیزوں کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے ان کو بجالایا جائے اور جن سے منع کردیا گیا ہے ان سے سخت اجتناب کیا جائے، حیاء کے وسیع تصور میں ایک یہ بھی ہے کہ صنفی تقاضوں کی تکمیل میں اللہ کے فطری نظام قانون کی پابندی کی جائے، اسلام نے نکاح کا قانون بنایا ہے، دیگر اور مذاہب کے ماننے والے بھی اس فطری تقاضے کی تکمیل کیلئے شادی بیاہ کو ضروری مانتے ہیں۔ اس کے بغیر ایک مرد وعورت کا ایک ساتھ زندگی گزارنا ان کے ہاں بھی رائج نہیں۔ ایک اچھا معاشرہ اس کو ”بے حیائی“ سے تعبیر کرتا ہے۔
رواں ماہ کی چودہ تاریخ کو پوری دنیا میں ”ویلنٹائن ڈے (یعنی محبت کا دن) منایا جاتا ہے جس کے تحت کئی قسم کی بے حیائی کے کاموں کو انجام دیا جاتا ہے۔ غیر اقوام کے ساتھ ساتھ مسلم نوجوان بھی اس میں ملوث ہوتے جارہے ہیں۔ مغربی تہذیب کو اپنانے میں فخر محسوس کررہے ہیں۔
اس کا اصل واقعہ یوں ہے کہ تیسری صدی عیسوی کی اواخر میں رومانی بادشاہ کلاڈیس ثانی کی حکومت تھی، کسی جرم کی پا داش میں بادشاہ نے ایک پادری کو جیل کی سلاخوں میں بند کردیا، اس پادری کا جیل خانہ میں چوکیدار کی لڑکی سے معاشقہ ہوگیا، وہ لڑکی بھی اس کے دام عشق میں گرفتار ہوئی جب بھی اس کے ہاں آتی تو سرخ رنگ کا گلاب تحفہ لے آتی۔ بادشاد کو اس کا پتہ چل گیا اس نے یکے بعد دیگرے دونوں کو تختہ دار پر چڑھادیا، یورپ کے بہت سے علاقوں میں اس دن کو یوم محبت کے عنوان سے منایا جانے لگا۔جس میں لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے کو مبارک بادی کے کارڈس پھول اور تحائف دیتے ہیں۔
ان واقعات کی تصدیق یا تحقیق مقصود نہیں ہے، ان واقعات کے پس منظر میں آج پوری دنیا جو”ویلنٹائن ڈے یعنی یوم محبت“کی لپیٹ میں ہے، اور چودہ فروری کو بڑے زور و شور کے ساتھ اس کا اہتمام ہورہا ہے۔جس میں فواحش ومنکرات کوشامل کرلیا گیا ہے، شراب نوشی،رقص وسرور کی محفلیں سجائی جاتی ہیں، حیا ء وآبرو کی چادر اتار کر بے حیائی وبے شرمی کے چلن کو فروغ دیا جارہا ہے۔
انسانیت و شرافت کی ساری حدیں توڑی جارہی ہیں، الغرض”یوم محبت“ کے عنوان سے وہ کچھ کیا جارہا ہے جو انسانیت اورشرافت کو داغدار کررہا ہے، اور اقوام وملل کے افراد غیر انسانی وغیر فطری،بے حیائی سے آلودہ سیلاب میں بہہ رہے ہوں تو اس کا زیادہ افسو س نہیں۔ لیکن اگر ایمان و اسلام کی نعمت سے مشرف ایمانی، اخلاقی، معاشرتی پاکی، حیاء کی پاسداربے حیائی پر نکیر کرنے کی امین امت مسلمہ کے اگر کچھ نوجوان یوم محبت کے دلدل میں پھنس جاتے ہیں تو یہ خون کی آنسو رونے کا مقام ہے۔
اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے ”جولوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے متمنی رہتے ہیں ان کے لئے دنیا وآخرت میں درد نا ک عذاب ہے“(النور)۔ معاشرہ میں بے حیائی کے کاموں کو فروغ دینے پر سخت وعید وارد ہے۔اور اگر کوئی بے حیائی کو پھیلانے اور اس کی ترویج واشاعت میں حصہ دار بنے تو ظاہر ہے وہ اس سخت وعید کا مستحق ہے۔ اسلام نے تو غیر اقوام سے ہر طرح کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا ہے۔حضرت نبی پاک ﷺ کا ارشاد ہے ”جو کوئی کسی اور قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہیں میں سے ہے“۔ (سنن ابوداؤد)
اس حدیث پا ک کی رو سے اور اقوام سے اقوال و افعال میں، لباس و پہناوے میں عبادات و اعیاد میں معاشرت وطرز زندگی میں مشابہت اختیار کرنا سخت منع ہے۔ ایسے تہوار یا ایسے پروگرام جس میں کفر و شرک کے اعمال اختیار کئے جاتے ہوں یا بے دینی وبے حیائی کی اشاعت ہوتی ہو ان میں شرکت کرنا یا کسی بھی طرح کی اس میں اپنی حصہ داری ادا کرنا اسلامی نقطہ نظر سے ناجائز وحرام ہے۔کفر و شرک کے مخصوص شعائر گمراہ طبقات کے طور طریق بے حیائی وبے شرمی کے سارے عوامل سے دامن بچانا ملت اسلامیہ کا فریضہ ہے۔
اسلام کے دامن میں قرآن وحدیث اوراسوۂ رسول اکرم ﷺ کی شکل میں وہ قیمتی خزانے محفوظ ہیں جو ملت اسلامیہ کی ہر ضرورت کو پوراکرسکتے ہیں،اسلام نے ایک ایسا معتدل ومتوازن دستور وقانو ن دیا ہے جو فطرت کے عین مطابق ہے،اس لئے امت مسلمہ کو کسی اورکی طرف جھانکنے کی ضرورت نہیں ہے، رنج وغم کے مواقع ہوں کہ خوشی ومسرت کے اسلام نے مسلمانوں کو ہر طرح بے نیاز رکھا ہے، ان کو کسی اور سے بھیک مانگنے یا کسی کے آگے اپنا دامن پسارنے کا محتاج نہیں رکھا۔
معاشرہ میں جو کچھ خرابیا ں اس وقت رونما ہیں نیز بدعات وخرافات، رسوم ورواج نے کچھ اس طرح اپنا سائبان تانا ہے کہ جس سے اسلامی حقائق اور اسلامی افکار واقدار ماند پڑتے نظر آرہے ہیں،اسلام کی عظمت کا حقیقی ادراک وشعور ہی اسلامی حقائق پر چھائے ہوئے دھندلکے کو دور کرسکتا ہے۔