نئی دہلی: جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے 34ویں اجلاس عام کے اختتام پر قوم کے نام جاری ایک پیغام میں کہا ہے کہ مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کو پورے ملک کے لیے نقصان عظیم تصور کرتی ہے جو ہماری دیرینہ وراثت سے میل نہیں کھاتی۔
جمعیۃ کی جاری ریلیز کے مطابق اس سے قبل دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے باضابطہ عہدنامہ پیش کیا، جس کی لفظ بہ لفظ دوہرا کر پورے مجمع نے کھڑے ہو کر تائید کی۔اس میں لوگوں نے عہد لیا کہ”وہ مذہبی رہنماؤں اور مقدس کتابوں کی کبھی توہین نہیں کریں گے، تشدد اور نفرت سے سماج کو آزاد کریں گے اور دیش کی رکشا، سرکشا، مان سمان او راکھنڈتا کے لیے پریاس کریں گے“۔
قوم کے نام جاری پیغام میں مزید کہا گیا کہ مختلف مذاہب کے درمیان دوستانہ اور برادرانہ رشتے ہمارے معاشرے کی قابل فخر اور پائیدار خصوصیات ہیں۔ان رشتوں میں دراڑ پیدا کرنا قومی جرم ہے۔تمام انصاف پسند جماعتوں اور ملک دوست اَفراد کو چاہیے کہ متحد ہوکر شدت پسند اور تقسیم کرنے والی طاقتوں کا سیاسی اور سماجی سطح پر مقابلہ کریں اورملک میں بھائی چارہ، باہمی رواداری اور اِنصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ہر ممکن جدوجہد کریں۔
پیغام میں بالخصوص نوجوانوں کو متنبہ کیا گیا کہ وہ ہمارے وطن کے داخلی اور خارجی دشمنوں کے براہ راست نشانے پر ہیں، انھیں مایوس کرنے، بھڑکانے اور گمراہ کرنے کا ہر حربہ استعمال کیا جارہا ہے، انھیں نہ تو مایوس ہونا چاہیے اور نہ ہی صبر وہوش کا دامن چھوڑنا چاہیے۔ جو نام نہاد تنظیمیں اسلام کے نام پر جہاد کے حوالے سے انتہا پسندی اور تشدد کا پرچار کرتی ہیں وہ نہ ملک کے مفاد کے اعتبار سے اور نہ ہی مذہب اسلام کی رو سے ہمارے تعاون اور حمایت کی حق دار ہیں۔
پیغام میں کہا گیا کہ ہندوستان، تنوعات اور تکثیری معاشرے کا حامل خوبصورت ملک ہے،اس کی خصوصیات میں سے بڑی خصوصیت تمام افکار و اعمال اور مراسم کے حامل لوگوں کو اپنی مرضی کی زندگی گزارنے اور نظریے پر چلنے کی آزادی ہے، اسے بچانے کے لیے گاندھی جی وغیرہ نے ان تھک کوششیں کی ہیں۔اس کے مدمقابل کبھی اسلام، کبھی ہندو تو اور کبھی عیسائیت کے نام پر جس جارحانہ فرقہ واریت کو فروغ دیا جارہا ہے، وہ ہرگز اس ملک کی مٹی اور خوشبو سے میل نہیں کھاتی۔
ہم یہاں یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ آرایس ایس اور بی جے پی سے ہماری کوئی مذہبی یا نسلی عداوت ہرگز نہیں ہے بلکہ ہمارا اختلاف نظریے پر مبنی ہے۔ ہماری نظر میں بھارت کے سبھی مذہبوں کے ماننے والے برابر کے شہری ہیں۔ آرایس ایس کے سر سنگھ چالک کے حالیہ ایسے بیانات کا جن سے باہمی میل جول اور قومی یک جہتی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے، ہم استقبال کرتے ہیں۔
پیغام میں کہا گیا ہے کہ معاشی ابتری، مہنگائی اور بیروزگاری ہمارے ملک کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔غریبی اور بے روزگای کی موجودہ شرح کو دیکھتے ہوئے ہماری ترقی کے تمام دعوے جھوٹے اور کھوکھلے ہیں۔ عورتوں کے حقوق کو لے کر پیغام دیا گیا کہ ہم مسلمانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ عورتوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کے ساتھ منصفانہ برتاؤ کے لیے اسلامی شریعت کے مقرر کردہ کوڈ کو عملی طورپر نافذ کریں۔
قبل ازیں امیر الہند مولانا سید ارشد مدنی صدر جمعیۃ نے کہا کہ 1400 سال سے ملک کے ہر گاؤں میں ہندو اور مسلمان ایک ساتھ رہ رہے ہیں۔ ان کے درمیان کبھی کوئی اختلاف نہیں ہوا اور نہ ہی کسی کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ اللہ نے آخری نبی کو سرزمین عرب پر بھیجا، اسی طرح سرزمین ہند پر پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام کا نزول ہوا۔ آدم وہ پہلے آدمی تھے جو آسمان سے آئے۔ انھوں نے کہا کہ میں فرقہ واریت کے خلاف رہا ہوں اور یہ بھی مانتا ہوں کہ جو فرقہ پرست ہے وہ ملک دشمن ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ گھر، دکان، بازار، کھیت جہاں کہیں بھی ہوں محبت کا پیغام پھیلائیں۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ ملک کو نفرت کے دور سے نکالے۔
دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی نے عوام سے اپیل کی کہ اجلاس کی تمام تجاویز کو پورے ملک میں پھیلائیں اور انھیں عملی جامہ پہنائیں۔انھوں نے کہا کہ جتنے کام کیے جارہے ہیں یہ سب تدابیر ہیں، تدابیر میں جان ڈالنے کے لیے ہمیں اللہ کو راضی کرنا ہے اور معاشرے کے اندر پھیلی ہوئی برائی کو مٹانے کی کوشش کرنا ہے۔