نئی دہلی: دہلی پولیس نے ہائی کورٹ کے سامنے دلیل دی ہے کہ 2019 کے جامعہ نگر تشدد مقدمے میں طالب علم رہنما شرجیل امام اور آصف اقبال تنہا سمیت 11 لوگوں کو بری کرنے کا ٹرائل کورٹ کا حکم صریح طور پر غیر قانونی ہے۔ ایک درخواست میں پولیس نے کہا ہے کہ ٹرائل کورٹ کا حکم قانون کے طے شدہ اصولوں کے مطابق نہیں ہے، وہ سنگین بے ضابطگیوں پر مشتمل ہے اور قانون میں نقائص ہے۔
درخواست کی سماعت پیر کو ہوگی۔ درخواست میں اپیل کی گئی ہے کہ ٹرائل کورٹ کا 4 فروری کو مقدمے کے 11 ملزمین کو بری کرنے کا حکم کالعدم قرار دیا جائے، نچلی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ دہلی پولیس نے انہیں "بَلی کا بکرا” بنایا تھا اور کسی بھی موضوع پر اختلاف رائے کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے اور اسے دبایا نہیں جانا چاہیے۔
تاہم ٹرائل کورٹ نے ایک ملزم محمد الیاس کے خلاف فرد جرم عائد کرنے کا حکم دیا۔اس کے ساتھ ہی دہلی ہائی کورٹ نے نچلی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف فیصلے کو چیلنج کرنے والی دہلی پولیس کی عرضی پر جلد سماعت کی مانگ کو قبول کر لیا ہے۔
بتادیں کہ 2019 کے جامعہ تشدد کیس میں شرجیل امام، صفورا زرگر، آصف اقبال تنہا اور دیگر آٹھ افراد کو ڈسچارج کرنے کے چند دن بعد ٹرائل کورٹ کے جج نے اسی طرح کے کیس کی سماعت سے خود کو الگ کر لیا ہے۔ ساکیت کورٹس کے ایڈیشنل سیشن جج ارول ورما نے اس کی ذاتی وجوہات بتائی ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ دسمبر 2019 میں یہاں جامعہ نگر علاقے میں شہریت (ترمیمی) ایکٹ (سی اے اے) کے خلاف احتجاج کرنے والے لوگوں اور پولیس کے درمیان ہونے والی جھڑپوں معاملہ میں ایک ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔