رجب، شوال، ذوالقعدہ، ذو الحجہ کا شمار اشہر حرم میں کیا جاتا ہے، ان مہینوں میں جنگ وجدال حرام قرار دیا گیا ہے۔ بعثت نبوی سے قبل عہد جاہلیت میں ان چار مہینوں کا بے حد ادب و احترام کیا جاتا تھا اور عرب اپنی بدویانہ زندگی کی وجہ سے لوٹ مار، فتنہ فساد اور ڈاکہ زنی جیسی عادتوں کے خوگر ہونے کے باوجود ان ایام میں اپنی تمام سرگرمیاں موقوف کردیتے تھے اور ہر طرف امن و امان، صلح و آشتی کا دور دورہ ہو جاتا تھا۔
اسلام نے ان مہینوں کی حرمت و عظمت کے تصور کو باقی رکھا اور ہر قسم کی انسانیت دشمن سرگرمیاں حرام قرار دے کر ان مہینوں کو امن کا گہوارہ بنانے کا حکم دیا۔ قرآن عظیم الشان ان مہینوں کی حرمت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتا ہے: ترجمہ: مہینوں کی تعداد اللہ تعالیٰ کے نزدیک بارہ ماہ ہے جو اللہ کی کتاب میں اسی دن سے درج ہے۔جب کہ اس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور ان بارہ مہینوں میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔
عربوں نے زمانہ جاہلیت میں اس مہینہ کی تعظیم کرنے اور جنگ وجدال سے باز رہنے کی وجہ سے اس کا نام رجب رکھا تھا۔ حدیث میں آیا ہے کہ کیا تم لوگ جانتے ہو کہ عتیرہ کیا ہے؟ وہی ہے جس کو اہل عرب رجبیہ کہتے تھے ترجیب کے معنی تعظیم اور رجب کے مہینہ میں قربانی کرنے کے آتے ہیں۔اور بعض لغات کی کتابوں میں رجب کے معنی بہرے کے بھی ذکر کیے گئے ہیں، اس معنی کے اعتبار سے رجب کے مہینہ کا نام رکھنے کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس مہینہ میں قتل و غارت گری بند ہوجاتی تھی،راستے پرامن ہو جاتے تھے اور پورے مہینہ میں امن و امان رہتا تھا۔
تاریخی حیثیت:۔
تاریخی حیثیت سے یہ مہینہ خاص اہمیت کا حامل ہے اور اسلامی مہینوں میں اس عتبار سے امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔ مثلاً تحویل قبلہ کا واقعہ ماہ رجب ہی میں پیش آیا ہے۔اس کے علاوہ اسلامی تاریخ کا اہم واقعہ معراج اسی مہینہ میں پیش آیا ہے بنسبت دیگر اسلامی مہینوں کے ماہ رجب میں احتمال زیادہ ہے۔
بہر حال واقعہ معراج ایک حیران کن اور حیرت انگیر واقعہ ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ جو دین کو عقل کی کسوٹی پر کھتے ہیں، آخر ان کا نتیجہ گم راہی ہوتی ہے اور وہ لوگ اس اظہر من الشمس حقیقت کا انکار کر بیٹھتے ہیں،لیکن واقعہ معراج نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے اور معجزے کی تعریف یہ ہے کوئی”خارق العادۃ“کام کا صدورنبی سے ہوجائے تو معجزہ کہلاتا ہے،جب کہ عام ولی سے ہوجائے تو وہ کرامت ہوتا ہے۔
اس واقعے کا پورا تذکرہ، بخاری شریف ومسلم شریف میں تفصیل کے ساتھ آیا ہے، اس کے علاوہ نماز کی فرضیت بھی واقعہ معراج میں ہوئی ہے، اسی طرح غزوہ تبوک بھی ماہ رجب میں پیش آیا ہے۔غزوہ موتہ میں رومیوں کو اپنی شکست فاش کا بڑا رنج وقلق تھا، وہ مسلمانوں سے انتقام لینا چاہتے تھے، مسلمانوں سے ٹکر لینے کی تیاری کی خبر برابر موصول ہورہی تھی اور انہوں نے فوج کو تبوک پر جمع کیا تھا۔جس کی سرکوبی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ضروری سمجھی اور باوجود سخت مشکلات،گرمی اور دیگر سازو سامان کی کمی کے مسلمانوں نے ان کے سامنے سینے تانے رکھے اور ان مغروروں کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔
پہلی صدی ہجری ہی میں ماہ رجب 2ھ میں مصر و اسکندریہ کے بادشاہ”مقوقسقبطی“نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفہ بھیجا۔ اس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اسلام کی دعوت کا خط لکھا تو اس نے بڑے اچھے طریقے سے خط کا جواب دیا اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے لیے درج ذیل تحفے بھیجے دوعدد باندیاں، جن میں ایک حضرت ماریہ قبطیہؓ بھی تھیں۔جن سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم پیدا ہوئے۔ ایک ہزار مثقال سونا یعفور نامی حماردلدل نامی خچر 30 عدد مصر کے نفیس کپڑے‘ عمدہ شہد‘ لکڑی کی شامی‘ سرمہ دانی‘ کنگھا‘ آئینہ۔
ماہ رجب 2ھ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کے ساتھ حضرت فاطمہؓ کا نکاح کیا۔ نکاح کا خطبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود پڑھا۔اس پر وقار مبارک تقریب میں خلفائے راشدین سمیت دیگر اصحاب کرامؓ شریک تھے۔
اسی صدی کے ماہ رجب میں صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سعد بن عبادہؓ کی وفات ہوئی۔(صحابہ انسائیکلو پیڈیا)
ماہ رجب میں صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عبداللہ بن سلامؓ بھی فوت ہوئے۔ (تقویم تاریخی) اور حضرت حفصہؓ کا ارتحال، وصحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسامہ بن زیدؓ کی وفات ہوئی۔
دوسری صدی کے ہجری ہی میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ، حسن بصریؒ(یعنی حضرت حسن ابن ابی الحسن)اور امام اعظم امام ابو حنیفہؒ جیسی شخصیات بھی اس دار فانی سے رخصت ہوئیں۔اس کے علاوہ اسی صدی کے ماہ رجب میں رومیوں نے ایشیائے کوچک کے سرحدی شہر”کمخ“پر حملے کے ساتھ”ملیطہ“شہر قبضہ کیا، یہاں جتنے مسلمان تھے ان کو قتل اور ان کی عورتوں کو قید کر لیا۔(ابن اثیر)
اسی صدی کے ماہ رجب میں 151ھ میں لعین حکیم مقنع نے آگ میں کود کر خودکشی کی۔(تقویم تاریخی) یہ اصلا ماوراء النہر (وسطی ایشیا)”مرو“کا باشندہ تھا۔ اس نے سونے کا ایک چہرہ بنا کر اپنے چہرہ پر لگالیا اور خدائی کا دعوی کردیا۔اس کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کر کے خود ان کے جسم میں حلول کیا، وغیرہ۔
بہر حال خلیفہ مہدی نے اس کی سرکوبی کے لیے لشکر بھیجے، بالآخر مقنع کا قلعہ”بسام“ محاصرہ میں لے لیا گیا، اس کے تیس ہزار متبعین نے مسلمانوں سے امن طلب کیا اور قلعہ سے باہر نکل آئے، اس کے ساتھ صرف دو ہزار افراد باقی بچے، آخرکار مقنع کو اپنی ناکامی کا یقین ہوگیا تو اس نے آگ جلا کر اپنے اہل و عیال کو اس میں دھکیل دے دیا، پھر خود بھی آگ میں کود کر جل مرا۔ مسلمانوں نے قلعہ میں داخل ہوکر مقنع کی لاش آگ سے نکالی اور اس کا سر خلیفہ مہدی کے پاس روانہ کیا۔ (تاریخ اسلام)
ماہ رجب 204 ھ میں حضرت امام شافعیؒ، ماہ رجب 259ھ میں محدث وقت حضرت حجاج بن شاعر،ماہ رجب 261ھ میں امام مسلمؒ (شہر ہ آفاق تصنیف ”صحیح مسلم“)ماہ رجب 280ھ میں امام ترمذیؒ نے بھی رحلت فرمائی۔ جب کہ ماہ رجب632 میں صاحب ہدایہ نے (ظفر المحصلین)،خواجہ معین الدین چشتیؒ نے (تذکرہ اولیاء)اور قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے ماہ رجب 1225 ھ میں وفات پائی۔ (مقدمہ تفسیر مظہری)