نفرت آمیز تقریر میں دن بہ دن اضافہ ہی ہو رہا ہے اور اس بات پر زور دیا کہ ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں مذہب کی بنیاد پر نفرت انگیز جرائم کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ نفرت آمیز بیانات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔
دہلی: سپریم کورٹ نے گذشتہ روز ایک مسلم شخص کی درخواست پر سماعت کے دوران کہا ہے کہ نفرت آمیز تقریر میں دن بہ دن اضافہ ہی ہو رہا ہے اور اس بات پر زور دیا کہ ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں مذہب کی بنیاد پر نفرت انگیز جرائم کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ نفرت آمیز بیانات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا ہے، اگر ریاست نفرت آمیز تقریر کے مسئلے کو تسلیم کرتی ہے تو اس کا حل تلاش کیا جانا ممکن ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ یہ ریاست کا بنیادی فرض ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو ایسے کسی بھی نفرت آمیز جرائم سے بچائے۔
جسٹس کے ایم جوزف اور بی وی ناگارتھنا کی بنچ کا کہنا ہے کہ جب نفرت پر مبنی جرائم کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی ہے تو پھر ایک ایسا ماحول پروان چڑھایا جاتا ہے جو بہت خطرناک اور نقصان دہ ہے، اسی لیے نفرت پر مبنی ماحول کو ہماری زندگیوں سے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا کیونکہ نفرت آمیز تقاریر پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔
سپریم کورٹ ایک مسلم شخص کی عرضی پر سماعت کر رہا تھا، جس نے الزام لگایا ہے کہ 4 جولائی 2021 کو جب وہ علی گڑھ جانے کے لیے نوئیڈا سے کار میں سوار ہوا، تو چند فرقہ پرست عناصر نے مذہب کے نام پر اس پر حملہ کیا اور اس کے ساتھ بدسلوکی کی اور جب اس معاملہ کی شکایت پولیس میں درج کرانی چاہی تو پولیس نے مقدمہ درج کرنے سے صاف انکار کردیا۔
بنچ نے اتر پردیش حکومت کی طرف سے پیش ہونے والے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل کے ایم نٹراج کو بتایا کہ ان دنوں نفرت آمیز تقاریر میں مسلسل اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں مذہب کے نام پر نفرت انگیز جرائم کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص پولیس کے پاس اپنی شکایت لے کر آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے ٹوپی پہن رکھی تھی اور میری داڑھی کھینچی گئی اور مذہب کے نام پر گالی اور ہراساں کیا گیا اور اگر اس کے بعد بھی کوئی مقدمہ درج نہیں کیا جاتا تو یہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔
جسٹس جوزف نے کہا کہ ہر ریاستی افسر کا عمل قانون کا احترام بڑھاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بصورت دیگر ہر کوئی شخص قانون کو اپنے ہاتھ میں لے گا۔ اس سماعت کے دوران بنچ نے کہا کہ کیا آپ یہ نہیں مانیں گے کہ نفرت پھیلانا جرم ہے اور آپ اسے پردے کے پیچھے چھپانا چاہتے ہیں؟ ہم کوئی منفی بات نہیں کہہ رہے ہیں، ہم صرف اپنی ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں۔
درخواست گزار کاظم احمد شیروانی کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل حذیفہ احمدی نے کہا کہ یہ 13 جنوری کو عدالت نے ریاستی حکومت سے کیس ڈائری پیش کرنے کو کہا تھا کہ پولیس نے دو سال بعد ایف آئی آر درج کی ہے اور وہ بھی ایک کو چھوڑ کر تمام قابل ضمانت جرائم کے ساتھ۔ کے ایم نٹراج نے اعتراف کیا کہ پولیس حکام کی جانب سے کوتاہی ہوئی ہے اور کہا کہ اے سی پی رینک کے افسر کی سربراہی میں ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی ہے اور غلط پولیس اہلکاروں کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال 21 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے اتر پردیش، اتراکھنڈ اور دہلی حکومتوں سے نفرت آمیز تقاریر کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ہدایت دی تھی۔ عدالت نے کہا تھا کہ ہم مذہب کے نام پر کہاں پہنچ گئے ہیں، ہم نے مذہب کو کس حد تک نیچھے گرا دیا ہے۔ عدالت نے تینوں ریاستی حکومتوں کو ہدایت دی تھی کہ بھارت کا آئین ایک سیکولر ملک کا تصور پیش کرتا ہے۔