غفور بستی سے جوشی مٹھ تک
حالات حاضرہ

ہلدوانی اور جوشی مٹھ

معاملہ ہلدوانی کا ہو یا جوشی مٹھ کا، دونوں جگہ انسان ہی بستے ہیں اور ہر دو شہر کے باشندوں کی پریشانیوں سے ہمیں بھی پریشانی ہے، لیکن دونوں کی نوعیت کو سامنے رکھنا چاہیے، غفور کالونی کو اجاڑنے کے لیے انسان کمر بستہ ہے، جبکہ جوشی مٹھ کو اختتام تک پہونچانے کے لیے قدرتی طور پر انتظام ہو گیا ہے۔ جب قدرت انتقام لینے پر آتی ہے تو اس کا کوئی انسانی حل کار گر نہیں ہوتا، ملکوں کے آباد اور ویران ہونے کی تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے۔”فاعتبروا یاٰولی الابصار“

اتراکھنڈ کے دو بڑے شہران دنوں سرخیوں میں ہیں، ایک ہلدوانی، دوسرا جوشی مٹھ، دونوں کی تاریخی حیثیت واہمیت ہے اور دونوں سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہر دور میں رہے ہیں، پہلے معاملہ ہلدوانی کا اٹھا تھا، وہاں کی غفور کالونی میں گذشتہ ستر پچھہتر سال سے لوگ بود وباش رکھتے ہیں، کالونی کے آباد ہونے کے بعد سے تیسری نسل اب یہاں رہائش پذیر ہے، کم وبیش پچھہتر ہزار کی آبادی پر مشتمل اس کالونی میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے۔

سرکاری طور پر یہ کہا گیا کہ یہ کالونی غیر قانونی طور پر ریلوے کی زمین پر آباد ہے، اس لیے بلڈوزر چلا کر اسے ویرانہ بنانا ہے، تیاری ساری کر لی گئی تھی، بلڈوزر کا رخ کالونی کی طرف ہو گیا تھا، ناامید ہوکر وہاں کے مکینوں نے احتجاج شروع کر دیا، وہ لوگ اس کے لیے بھی تیار ہوگئے کہ بلڈوزر پہلے ہمارے جسم وجاں پر چلے گا، پھر ہمارے مکانوں تک پہونچے گا۔

پوری دنیا کی میڈیا اس طرف متوجہ ہوئی اور سوالات کھڑے ہونے شروع ہوئے کہ اگر یہ غیر قانونی ہے تو وہاں سرکاری اسکول، ہاسپٹلز کس طور قائم ہوئے، بجلی اور پانی کی سرکاری سپلائی کا نظام کس بنیاد پر ہے، کثیر منزلہ عمارتیں یک بارگی تو نہیں بنیں، انہیں سرکاری کارندوں کی تحریری یا زبانی رضا مندی کس طور حاصل ہوئی، ان سوالات کا کوئی جواب نہ تو محکمہ ریلوے کے پاس تھا اور نہ ہی حکومت کے پاس۔

احتجاج جاری رہا، کچھ لوگ اللہ کی طرف رجوع ہوئے اور کچھ سپریم کورٹ کی طرف، سب کی محنت رنگ لائی اور سپریم کورٹ نے بلڈوزر کی کارروائی پر روک لگادی، عدالت نے واضح طور پر یہ بات کہی ہے کہ ساٹھ ستر ہزار لوگوں کو صرف سات دن میں مکان خالی کرنے کا نوٹس دے کر اجاڑا نہیں جا سکتا، یہ انسانیت کے خلاف ہے ، اس ٹھنڈ میں وہ کہاں جائیں گے۔ اس لیے سرکار کو چاہیے کہ وہ غفور کالونی کے مکینوں کی باز آباد کاری کے لیے پہلے منصوبہ بنائے اور جب وہ نقل مکانی کی پوزیشن میں سرکاری امداد وراحت رسانی سے پہونچ جائیں تو زمین خالی کرائی جا سکتی ہے ، سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ عبوری ہے ، سماعت جاری رہے گی، لیکن وقتی طور پر لوگوں کو اس فیصلے سے راحت ملی ہے۔

ہلدوانی معاملہ کی باز گشت ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ جوشی مٹھ کی زمینیں پاؤں کے نیچے سے کھسکنے لگیں، مکانوں میں دڑاریں پڑنے لگیں اور کسی بھی وقت مکان کے گرنے اور مکینوں کے اس میں دب جانے کے خطرہ نے سر اٹھانا شروع کیا، ہندوؤں کے نزدیک یہ ایک مقدس شہر ہے، زائرین کی کثرت کی وجہ سے یہاں کثیر منزلہ ہوٹل ہیں، ان میں جب دڑاریں پڑنے لگیں تو اسے زمیں بوس کر دیا گیا اور وہاں کی آبادی کو سرکاری طور پر دوسری جگہ منتقل کرنے اور انہیں گذارا بھتہ دینے کا عمل جاری ہے۔

اتراکھنڈ کی ریاستی حکومت اور مرکز کی مودی حکومت ان حالات سے نمٹنے اور اس شہر کو بچانے کے لیے سر گرم عمل ہے، لیکن زمین اور مکانوں میں دڑاریں مسلسل آرہی ہیں، پاور پلانٹ بھی یہاں کا خطرے میں ہے اور شہر میں بجلی کسی وقت بھی غائب ہو سکتی ہے، نیا پاور پلانٹ بنانا خرچیلا بھی ہے اور وقت طلب بھی ، ماہرین کی رائے ہے کہ مسلسل سرنگوں کے کھودنے اور غیر قانونی کھدائی کی وجہ سے یہ مصیبت آئی ہے ، اور اب یہ شہر اس لائق نہیں ہے کہ یہاں لوگوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔

یہ انسانی بس کی بات نہیں ہے ، انسانوں نے اپنے ہاتھوں اس مصیبت کو دعوت دی ہے اور یہ معاملہ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ شہر خالی کراکر ویرانہ میں تبدیل کر دینا ہی اس کا واحد حل ہے، حقوق انسانی کی بعض تنظیمیں متاثرین کی مدد کے لیے آگے آئی ہیں، وہ مالی مدد تو فراہم کر سکتی ہیں، لیکن زمینوں کے کھسکنے کو روکنا ان کے بس میں بھی نہیں ہے۔

معاملہ ہلدوانی کا ہو یا جوشی مٹھ کا، دونوں جگہ انسان ہی بستے ہیں اور ہر دو شہر کے باشندوں کی پریشانیوں سے ہمیں بھی پریشانی ہے اور ہماری خواہش ہے کہ اس کا حل جلد نکل آئے، لیکن دونوں کی نوعیت کو سامنے رکھنا چاہیے، غفور کالونی کو اجاڑنے کے لیے انسان کمر بستہ ہے، جبکہ جوشی مٹھ کو اختتام تک پہونچانے کے لیے قدرتی طور پر انتظام ہو گیا ہے۔

انسانوں کے فیصلے تو بدل جاتے ہیں، جیسا غفور کالونی معاملہ میں سپریم کورٹ نے کیا، لیکن جب قدرت انتقام لینے پر آتی ہے تو اس کا کوئی انسانی حل کار گر نہیں ہوتا، ملکوں کے آباد اور ویران ہونے کی تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے۔”فاعتبروا یاٰولی الابصار“