جمعیۃ علماء مہاراشٹر قانونی امداد کمیٹی کی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں مؤثر پیروی سے 200 سے زائد ہندو مسلم نوجوانوں کی ملازمت برقرار رہی اور انہیں سرکاری ملازمت سے محروم نہیں ہونا پڑا۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ کی جانب سے آج یہاں معاشی طور پر کمزور طبقہ (ای ڈبلیو ایس) سے تعلق رکھنے والے ہندو مسلم نوجوانوں کو محکمہ بجلی (مہاوترن ریاست مہاراشٹر) میں اسسٹنٹ کی پوسٹ پر ملی نوکریوں پر مہر لگادی گئی۔ سپریم کورٹ کی دو رکنی بینچ کے جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس جے کے مہشوری نے مہاراشٹر حکومت کی جانب سے داخل کردہ اپیل کو خارج کردیا، مہاراشٹر حکومت نے بامبے ہائی ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
عدالت نے حکومت مہاراشٹر کی جانب سے جاری کردہ خصوصی جی آر کو غیر قانونی قرار دینے والے بامبے ہائی کورٹ کے فیصلہ کو برقرار رکھتے ہوئے معاشی طور پر کمزور طبقہ سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کو بڑی راحت دی ہے ان میں زیادہ تر مسلم نوجوان شامل ہیں۔
معاشی طور پر کمزور طبقہ سے تعلق رکھنے والے راہل بسون اپپا والے، شیونند کالے، دوال شیخ، سید توصیف علی ، ویبھو کناڈے اور گنیش پردیپ دیگر نے جمعیۃ علماء مہاراشٹر کے توسط سے پہلے مرحلہ میں سپریم کورٹ میں کیویٹ داخل کیا تھا اور ایڈوکیٹ گورو اگروال کی خدمات حاصل کی تھی۔
ایڈوکیٹ گورو اگروال نے دوران سماعت عدالت کو بتایا کہ بامبے ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں معاشی طور پر کمزور طبقہ سے تعلق رکھنے والے ہندو مسلم نوجوانوں کو محکمہ بجلی (مہاوترن) میں اسسٹنٹ کی پوسٹ پر نوکری مل گئی ہے اور گذشتہ تین ماہ سے انہیں باقاعدہ تنخواہ بھی ادا کی جارہی ہے نیز بامبے ہائی کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی اور اس میں مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ عدالت نے فیصلہ قانون کے مطابق تفصیلی بحث کی سماعت کے بعد دیا ہے۔
مہاراشٹر حکومت کی نمائندگی کرنے والے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل آف انڈیا بلبیر سنگھ نے بامبے ہائی کورٹ کے فیصلہ پر نظر ثانی کی عدالت سے گذارش کی لیکن عدالت نے ان کی گذارش کو خارج کردیا۔ اس مقدمہ میں سپریم کورٹ میں کل چار سماعتیں ہوئی جس کے بعد عدالت نے مہاراشٹر حکومت کی اپیل کو خارج کردیا۔
سپریم کورٹ کے حکم سے تقریباً دیڑھ سو مسلم نوجوانوں کی ملازمت پر مہر لگ گئی جس سے مسلم نوجوانوں کو بڑی راحت حاصل ہوئی ہے کیونکہ سرکاری ملازمت ملنے کے باوجود انہیں فکر لاحق تھی کہ سپریم کورٹ کا کیا فیصلہ آتا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے سے معاشی طور پر کمزور طبقہ سے تعلق رکھنے والے(ہندو مسلم) کل 235 نوجوانوں کو راحت ملی ہے۔
جمعیۃ علماء مہاراشٹر قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے عدالتی فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ معاشی طور پر کمزور طبقہ سے تعلق رکھنے والے راہل بسون اپپا والے، شیونند کالے، دوال شیخ، سید توصیف علی ، ویبھو کناڈے اور گنیش پردیپ و دیگر نوجوانوں نے ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے لیے جمعیۃ علماء سے قانونی امداد طلب کی تھی۔
جمعیۃ علماء نے پہلے بامبے ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن ایڈوکیٹ افروز صدیقی کے ذریعہ داخل کی تھی جس میں کامیابی حاصل ہوئی تھی لیکن ریاستی حکومت نے بامبے ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا سپریم کورٹ سے انہیں راحت حاصل ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ سال 2018-19 میں مہاراشٹر حکومت نے محکمہ بجلی (مہاوترن) میں اسسٹنٹ کی پوسٹ کے لئے اشتہار نکالا تھا اور اور اس کے بعد امتحان لیا گیا جس میں معاشی طور پر کمزور طبقہ سے تعلق رکھنے والے ہندو مسلم نوجوانوں نے کامیابی حاصل کی تھی اسی طرح سماجی اور تعلیمی طور پر پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں نے بھی کامیابی حاصل کی تھی لیکن اسی درمیان سپریم کورٹ نے مراٹھا ریزورشن پر اسٹے لگادیا تھا جس کے بعد سماجی اور تعلیمی طور پر پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی نوکریاں خطرے میں پڑ گئیں۔
سپریم کورٹ کے اسٹے لگانے کے بعد حکومت مہاراشٹر نے سماجی اور تعلیمی طور پر پسماندہ طبقات کو معاشی طور پر کمزور طبقہ سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں پر فوقیت دینے کا جی آر جاری کیا جسے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا، ہائی کورٹ نے فیصلہ معاشی طور پر کمزور طبقہ سے تعلق رکھنے والے ہندو مسلم نوجوانوں کے حق میں دیا تھا ریاستی حکومت نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔