نئی دہلی: سپریم کورٹ میں 15 سال سے زائد مسلم لڑکی کی مرضی سے شادی کرنے سے متعلق ایک عرضی داخل کی گئی ہے کہ کیا 15 سال کی مسلم لڑکی اپنی مرضی سے شوہر کا انتخاب کرسکتی ہے یا نہیں۔
یہ عرضی قومی کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال کی جانب سے داخل کی گئی ہے اور اس عرضی پر سماعت کے لیے سپریم کورٹ نے اتفاق کیا ہے۔ قومی کمیشن کی اس عرضی میں پنجاب و ہریانہ ہائی کورٹ کے اس حکم کو چیلنج پیش کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایک مسلم لڑکی 15 سال کے بعد اپنی مرضی سے شادی کر سکتی ہے یا نہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق سپریم کورٹ نے قومی کمیشن کی اس عرضی پر ہریانہ حکومت و دیگر کو نوٹس جاری کیا ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ ہائی کورٹ کے فیصلے کو دیگر امور میں مثال کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا ہے۔
دراصل ہائی کورٹ کے ایک فیصلے میں کہا گیا تھا کہ مسلم پرسنل لاء کے مطابق 15 سال کی مسلم لڑکی اپنی مرضی کے مطابق قانونی اعتبار سے شادی کر سکتی ہے۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس پی ایس نرسمہا کی بنچ نے کہا کہ ہم ان رِٹ پٹیشنز پر غور کرنے کے لیے اتفاق کرتے ہیں۔ آگے کے حکم زیر التوا رہیں گے اور ہائی کورٹ کے فیصلے کو مثال کے طور پر نہیں مانا جائے گا۔
اس معاملہ میں سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت کو بتایا کہ 14، 15، 16 سال کی مسلم لڑکیوں کی شادی کی جارہی ہے۔ کیا ایک قابل سزا جرم کا مسلم پرسنل لاء سے دفاع کیا جا سکتا ہے؟ دراصل اسلامی قانون کے مطابق بلوغت کی عمر 15 سال ہے اور اس کے بعد لڑکیوں کی شادی کی جا سکتی ہے۔