امت مسلمہ کے سامنے دو مسئلے ہیں، ایک ہے کسی بھی بے قصور مسلمان کا قتل ہونا اور دوسرا ارتداد، زیادہ بڑا چیلنج مسلم لڑکیوں کا ارتداد ہی ہے، کیوں یہ اجتماعی معاملہ ہے اور اجتماعی ذمہ داری بھی، اس لیے اس کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کا فروغ انتہائی ناگزیر ہے۔
دہلی: جمعیۃ علماء ہند کے چونتیسویں اجلاس عام کی تیاریوں کے سلسلے میں ایک اہم میٹنگ ہوئی جس میں اجلاس کے اغراض ومقاصد اور منظر، پس منظر پر صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی نے تفصیل سے روشنی ڈالی، اس میں دہلی اور لونی حلقہ کے تین سو ائمہ مساجد اور جمعیۃ سے وابستہ ذمہ داران نے شرکت کی۔
اس موقع پر مولانا محمود مدنی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ملک و ملت کے سامنے ہمیشہ ایسے مسائل رہے ہیں جن پر اجتماعی غور و فکر کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ایک مستحکم اور پائیدار لائحہ عمل طے کرکے آگے بڑھا جائے۔ موجودہ وقت میں ملت کے سامنے بہت سارے چیلنجز ہیں، جن کا ہوش مندی سے حل نکالنا ضروری ہے، لیکن مایوس ہونے اور بہت زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ چند مخصوص عناصر ہمیں مایوس کرنا چاہتے ہیں، لیکن ہم ہرگز مایوس نہیں ہونے والے ہیں اور نہ جھکنے والے ہیں، ہمیں خود کے اندر اعتماد اور حوصلہ پیدا کرنا ہے اور ہر طرح سے پر عزم رہنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہماری لڑائی خود اپنی کمزوریوں سے ہے، جب ہم اپنی کمزوریوں پر غالب آجائیں گے تو ہمیں کامیاب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا، غم کی رات طویل ضرور ہے، مگر ختم ہونے والی ہے، کیوں کہ دائمی اختیار اور طاقت صرف اللہ کو حاصل ہے۔
مولانا مدنی اس موقع پر ائمہ کرام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہی شخص اجتماعی ذمہ داریوں کو ادا کر سکتا ہے جو انفرادی ذمہ داری ادا کرنے کا اہل ہو، یعنی مضبوط ، مستحکم، صحت مند، اولو العزم اور قربانی دینے کے لیے تیار ہو، نیز وہ جہد مسلسل کا عازم ہو، ہماری مساجد کے جو ائمہ کرام ان خوبیوں اور کمالات سے متصف ہیں وہ اپنے علاقے کے خادم اور رہنما ہیں اور جہاں ایسا نہیں ہے وہاں بڑا خلا پیدا ہوا ہے۔
مولانا مدنی نے ائمہ کرام سے اپیل کی کہ نئی نسل کو دین کی بنیادی تعلیم سے وابستہ کرنے کے مقصد سے ضرور مکاتب قائم کریں، ہمارے سامنے دو مسئلے ہیں ، ایک ہے کسی بھی بے قصور مسلمان کا قتل ہونا اور دوسرا مرتد ہونا ، زیادہ بڑا چیلنج مرتد ہونا ہے، کیوں یہ اجتماعی معاملہ ہے، اس لیے اس کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کا فروغ انتہائی ناگزیر ہے، محلے کی ضروریات میں سے سب سے بڑی ضرورت بچوں کی تعلیم و تربیت کی تکمیل ہے، اگر آپ محلے کے بچوں کی تعلیم و تربیت پر فکر مند ہو گئے تو آپ ان کے محسن اعظم بن جائیں گے، اسی طرح عصری تعلیم کے لیے ٹیوشن کا بھی انتظام کرسکتے ہیں۔
مولانا مدنی نے جمعیۃ علماء ہند کی چند خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جمعیۃ طویل مدت سے آئینی حقوق کی حفاظت کے لیے مقدمات لڑرہی ہے، اس کے علاوہ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے ذریعہ ماخوذ ہونے والوں کا مقدمہ لڑتی ہے ، جس میں دہشت گردی وغیرہ کے مقدمات شامل ہیں۔ اس میدان میں امتیاز صرف جمعیۃ علماء ہند کو حاصل ہے۔ تیسری قسم یہ ہے کہ کسی مسلمان کو مسلمان ہونے کی و جہ سے ظلم کا سامنا ہے تو جمعیۃ علما ء ہند ان مظلوموں کو انصاف دلاتی ہے۔