مساجد کی انتظامی کمیٹی کے صدر یا معتمد بننا کوئی معمولی منصب نہیں ہے۔ اِس خدمت کا موقع صرف خوش نصیبوں کو ملتا ہے۔ یقینا اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے کوئی کام لینا چاہتا ہے۔ اب یہ اِن پر منحصر ہے کہ دادا پڑدادا کے زمانے سے جو سسٹم چلا آرہا ہے، اسی سسٹم پر مسجدوں کو چلائیں یا زمانہ جس تیزی سے بدل رہا ہے، اس کے پیشِ نظر خود بھی بدلیں اور مسجدوں کے نظام کو بھی بدلیں۔
سب سے پہلے تو یہ غور کرنا ہوگا کہ جمعہ کے خطبے لوگوں سے خالی کیوں ہوگئے۔کیوں لوگ اردو خطبہ سننا نہیں چاہتے، کیوں جماعت کھڑی ہونے سے صرف دو چار منٹ قبل مسجد میں داخل ہونا چاہتے ہیں؟ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ حالانکہ خطبہ سننا واجب ہے۔ جمعہ کی اہمیت صرف خطبہ کی وجہ سے ہے، ورنہ ظہر تو ہر روز پڑھی جاتی ہے۔
جمعہ کے دن ہی ایسی کیا خصوصیت ہے، یہ سمجھنے کے لئے خطبہ دراصل کیا ہے، اور اس کے احکامات کیا ہیں، انتظامی کمیٹی والوں کو یہ سمجھنا ہوگا۔ کمیٹی والے یہ سمجھتے ہیں کہ جو دو مختصر خطبے عربی میں پڑھے جاتے ہیں، وہی اصل میں خطبہ ہیں، اور اِس سے قبل جو تقریر اردو یا کسی بھی مقامی زبان میں ہوتی ہے، وہ محض ایک اضافی شئے ہے گویا کی کوئی اہمیت یا فرضیت نہیں ہے۔ حالانکہ شریعت میں خطبہ کی اہمیت کے اعتبار سے اردو خطبہ ہی اصلی خطبہ ہے، اور مابقی عربی خطبے محض ایک Formality ہیں لیکن لازمی ہیں کیونکہ یہ ہمارے رسول ﷺ، خلفائے راشدین اور تمام اسلاف کی سنّت ہیں۔
خطبہ کا مقصد جو علما نے بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ حالاتِ حاضرہ کا جائزہ پیش کیا جائے اور قرآن و حدیث کی روشنی میں کیا کرنا ہے اس کی رہنمائی کی جائے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب خطبہ اُس زبان میں ہو جو لوگوں کی بول چال کی زبان ہے۔عربی خطبے چونکہ نہ پیش کرنے والا خطیب سمجھتا ہے اور نہ سامعین، تو ہمارے علما نے یہ طریقہ رائج کیا کہ عربی خطبوں سے پہلے مقامی زبان میں ایک تقریر یا لکچر رکھا جائے، جوخطبہ کے اصل مقصد کو پورا کرے۔ اب اس دور میں اردو یا انگریزی یا کسی بھی مقامی زبان میں جو تقریر ہوگی، وہ اصل خطبہ تصور کیا جائے گا۔
جانے کیوں ایک غلط فہمی کمیٹی والوں کے ذہن میں بیٹھ گئی یا بٹھادی گئی کہ اس خطبہ کے لئے عالم کا ہونا شرط ہے۔ یہ تو مناسب ہے کہ عربی خطبوں کے لئے اور نماز پڑھانے کے لئے عالم، یا مفتی، یا حافظ ہو، لیکن جہاں تک اردو خطبہ کا تعلق ہے، اس کے لئے عالم ہونے کی شرط نہیں بلکہ جس موضوع پر بات کررہا ہو اس مضمون میں اہلیت رکھنے کی شرط ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اور ان کے بعد مسجدِ نبوی میں صرف خلفائے راشدین نے خطبہ دیا۔ اور جہاں یہ نہیں تھے وہاں ان کے مقرر کردہ گورنر یا نائبین نے خطبہ دیا۔ اسی لئے فقہا کے نزدیک خطبہ کا پہلا حق خلیفہ یا بادشاہ یا گورنر یا پھر انہی کے مقرر کردہ نائبین کا ہے۔
اسی مسئلے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چونکہ ہندوستان کوئی اسلامی مملکت نہیں ہے اس لئے یہاں وہ شخص خطبہ دے جو اس موضوع پر ایکسپرٹ ہو۔کسی بھی ہاٹ ٹاپِک پر سوشیل میڈیا یا اخبارات سے کچھ خبریں نکال لینا اور چند حدیثیں اور قرآن کی آیتیں جمع کرکے انہیں حالاتِ حاضرہ سے جوڑکر ایک دھنواں دھار تقریر کردینا کافی نہیں، جو کہ آج ہر خطیب کا چلن بن چکا ہے، جس کے لئے انہیں معاوضہ بھی ملتا ہے۔
صحیح خطبہ پیش کرنے کے لئے حالات کا صحیح جائزہ لینا، ان کا تجزیہAnalysis کرنا اور ایک عملی اقدام پیش کرنا لازمی ہے۔ اس کے لئے ایک ریسرچ اسکالر یا اس میدان کا فیلڈ ورکر درکار ہے۔ جس طرح ایک ہی ڈاکٹر سارے امراض کا علاج نہیں کرسکتا اسی طرح ایک ہی شخص جس نے کبھی کالج یا یونیورسٹی کی شکل ہی نہیں دیکھی، محض چند سو سال پرانے فتوؤں کی روشنی میں موجودہ حالات میں رہنمائی نہیں کرسکتا۔ جوشیلی تقریر تو ہوجاتی ہے جو کمیٹی والوں کو بہت پسند آتی ہے، لیکن پڑھا لکھا طبقہ اپنی ہتک محسوس کرتا ہے، اور دوبارہ ایسی تقریریں سننے نہیں آتا۔
یہی وجہ ہے کہ جمعہ کے خطبوں میں اب یا تو ریٹائرڈ لوگ یا پھر دین کی سمجھ نہیں رکھنے والے لوگ تو آجاتے ہیں لیکن قابل افراد نہیں آتے۔ کمیٹی والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ قابل لوگ کیوں آنا نہیں چاہتے۔ آپ ہی فیصلہ کیجئے کہ اگر ایک شخص جس نے نہ کبھی کامرس پڑھی نہ اکنامی، نہ بنکنگ پڑھی نہ انشورنس، نہ ان میدانوں میں آنے والی ہر روز کی نئی تبدیلیوں سے واقف ہے، وہ شخص کھڑا ہوکر بنک حرام، انشورنس حرام کے قدیم زمانے کے فتوے پیش کررہا ہو تو جو قابل MBA یا Banker یا Insurer ہے، وہ ایسی غیرمنطقی گفتگو کو سن کر کیا سوچے گا۔
اکثریت یقینا ایسے خطبوں کو پسند کرتی ہے۔ کیونکہ مسلمانوں میں دینی علوم سے ناواقفیت کی وجہ سے آج بھی کسی بھی بڑی داڑھی اور عمامے میں تقریر کرنے والوں سے متاثر ہوکر ان کو سننے کی اسی طرح عادی، جس طرح پنڈت کے پیچھے چلنے والے شودروں کی بھی اندھی عقیدت ہے۔اسی لئے تعلیم یافتہ طبقہ نہ صرف ایسی تقریروں کو رد کردیتا ہے بلکہ دین سے بھی بدظن ہوجاتا ہے۔ ان لوگوں کو مسجدوں سے دور کرنے والوں میں سب سے پہلے یہی کمیٹیاں ہیں، جو ایک ہی خطیب کو برسہا برس تنخواہ دے کر رکھتے ہیں۔
اسی لئے کہیں اولیاء اللہ کے عجیب عجیب من گھڑت قصے سنائے جاتے ہیں، کہیں فقہی اور مسلکی باتیں چلتی رہتی ہیں۔ کہیں صرف توحید، توحید کا ریکارڈ چلتا رہتا ہے تو کہیں آدابِ زندگی پر پیاری پیاری باتیں چلتی رہتی ہیں۔ کہیں کہیں تو جہاد قتال اور نعرہ تکبیر اللہ اکبر ٹائپ کی تقریریں کرکے خطیب حضرات دادِ شجاعت حاصل کرتے رہتے ہیں۔ لیکن مسجد کے اطراف رہنے والے فارغ ہونے کے باوجود خطبہ سننے مسجد نہیں آتے، کیوں کہ ان کے ذہن بے شمار مسائل سے دوچار ہیں۔
خطیب جس زبان میں بات کررہے ہیں، وہ زبان اب لوگوں کی زبان نہیں رہی کیونکہ فصیح اردو کا دور اب ختم ہوچکا ہے۔ دوسرے یہ کہ جن مسائل پر خطیب بات کررہے ہیں وہ مسائل بھی ان کے مسائل نہیں رہے۔یقینا خطیب آخرت کی کامیابی ہی کی بات کرتے ہیں، لیکن آخرت کی کامیابی کا انحصار موجودہ حالات کی سنگینیوں کا اسلام کس طرح مقابلہ کرکے آخرت کی کامیابی کا درس دیتا ہے، یہ بتانے کے بجائے صبر،وظائف، دعائیں یا پھر ترکِ دنیاکی تعلیم دی جاتی ہے۔
لوگوں کے ذہنوں میں گونجنے والے مسائل کا انہیں حل چاہئے۔ انہیں ان کے ذہنوں میں جو بے شمار جو سوالات ہیں، ان کا جواب چاہئے۔ کوئی ملک کے حالات پر فکرمند ہے، کسی کو کونسلنگ کی ضرورت ہے، کسی کو قانون کی جان کاری چاہئے تو کسی کو معاشرتی برائیوں کو ختم کرنے تقریر نہیں بلکہ عملی اقدام چاہئے۔کوئی بیٹیوں کے جہیز کے لئے پریشان ہے، تو کوئی طلاق یا خلع کی وجہ سے پریشان ہے۔
ظاہر ہے یہ مسائل تو خطبے سے حل نہیں ہوتے، لیکن لوگوں کے ذہنوں میں جب پریشانیاں گِھری ہوں تو اُن کا تقریروں میں دل نہیں لگتا۔ ان تقریروں سے سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ برسہابرس سے ایک ہی قسم کے اسٹیریوٹائپ خطبوں کی وجہ سے لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ دین کا مطلب صرف فاتحہ سلام اولیااللہ مسلک اور نماز، روزہ کے احکامات یا پھر فضائل کی تقریریں ہیں، عصرِ حاضر کے مسائل میں دین میں نہ کوئی رہنمائی ہے اور نہ ایسا کوئی رہنما ہے۔
لوگوں کے دین پر سے اٹھتے ہوئے اعتماد کو بحال کرنے اور صحیح قائدین کی ایک نئی فوج تیار کرنے کے لئے لازم ہے کہ خطبے ایسے قابل لوگوں کے رکھے جائیں جو ان موضوعات پر تجربہ رکھتے ہوں، اور انہیں شریعت اور منشائے شریعت کا شعور ہو۔ جس طرح یہ ضروری نہیں کہ دنیاوی تعلیم رکھنے والا ہر شخص دین کے شعور سے واقف ہو، اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر دینی علم رکھنے والا دنیاوی علوم کے شعور سے واقف ہو۔
ہم کو دونوں کی ضرورت ہے۔ اس لئے ایک درمیان کی راہ نکالنی پڑے گی۔ لوگوں کو قانون کی جان کاری ضروری ہے۔ ہر شہر میں ایسے قابل وکیل موجود ہیں جودینی شعور بھی رکھتے ہیں اور آبادیوں اور مسجدوں کو بلڈوزروں سے بچانے کے لئے قانونی طور پر رہنمائی کرسکتے ہیں۔ اسی طرح ہر شہر میں بہترین کونسلر، موٹیویشنل اسپیکرز، سوشیل Activists، بینکرز، انشورر، صحافی، تبصرے و تجزیہ نگار، ہیلتھ ایکسپرٹس، ڈاکٹرز، لیڈرس، ایجوکیشنسٹس، دانشور، تاجر، روزگار فراہم کروانے والے جہدکار، اور ٹیچرس یا پروفیسر موجود ہیں جن کو دین و ملت کا اتنا ہی درد ہے جتنا ایک عالم یا حافظ کو ہوتا ہے۔
انہیں فقہی معلومات کا علم کم سہی لیکن منشائے فقہ یا منشائے قرآن و حدیث کا علم برابر ہوتا ہے۔ اگر ان افراد کو ایک ایک جمعہ خطبہ دینے کی دعوت دی جائے، نماز کے بعد سوالات جوابات کا اعلان کیا جائے، اور جمعہ سے پہلے پمفلٹ یا نوٹس بورڈ کے ذریعے پہلے سے تشہیر کی جائے تو دیکھئے مسجدیں دوبارہ بھرنی شروع ہوجائینگی۔ لوگ روایتی خطبوں سے چونکہ بیزار ہوچکے ہیں، اس لئے وہ ایک نئے پن کو دیکھ کر مسجدوں کو ضرور آئیں گے۔
ایک اور غلط فہمی جو کمیٹی والوں نے اپنے دماغوں میں بٹھا رکھی ہے، وہ یہ کہ خطبہ دینے والے کا کمیتی والے مسلک اور داڑھی پہلے دیکھتے ہیں۔ اگر وہ اس کسوٹی پر پورے نہ اتریں تو ان کی قابلیت کے آگے ایک میٹرک پاس مولوی کو ہی خطبہ کے لئے ٹھہرادیتے ہیں۔ یاد رکھئے، خطبہ محض ایک تقریر نہیں ہے۔ یہ قیادت سازی کی ایک تربیت ہے۔ بلکہ منبر قیادت سازی کی ایک تربیت گاہ ہے۔ اگر اس منبر کی اہمیت کو کمیٹی والے نہ سمجھیں تو کل قیامت میں سخت پکڑ میں آئیں گے۔
آج چونکہ اکثریت کی ذہنیت ہی یہ بن چکی ہے کیونکہ ان کو ذہنوں میں بھی یہ بٹھا دیا گیا ہے کہ قیادت صرف مولوی یا پنڈت کرسکتا ہے، اس لئے قابل افراد کو منبر سے دور رکھنے کے نتیجے میں دور دور تک مسلمانوں میں قیادت نہیں ہے۔ جو آدمی ہر موضوع پر بولتا ہے، وہ بہترین خطیب تو ہوسکتا ہے، لیکن قیادت کرنے کا اہل نہیں ہوتا۔ جو جس مضمون میں ایکسپرٹ ہوتا ہے وہ اس میدان میں قیادت کرنے کے قابل بھی ہوتا ہے۔
اب مسلمانوں میں احمد سرہندی ؒ یا شاہ ولی اللہ ؒ یا جمال الدین افغانی جیسے لوگ پیدا نہیں ہوتے جن کو ہر موضوع پر بولنے کی نہ صرف دسترس حاصل تھی بلکہ وہ ہر میدان کے بہترین قائدین بھی تھے۔ اب جو لوگ ایک ایک میدان میں صلاحیت رکھتے ہیں، ان کو قائد بنانے کے لئے ان کو عوام کو مخاطب کرنے کیلئے اگر کمیٹیاں والے موقع دیں تو بہترین قائدین پیدا ہوسکتے ہیں۔ ورنہ وہی چالباز سیاستدان دشمنوں سے ہاتھ ملا کر قوم کو دھوکہ دیتے رہیں گے۔
کمیٹیاں والے اپنے عہدوں کو بچانے کے لئے انہی لیڈروں کے یا پھر حکومت کے خوف میں قیادت سازی کے راستے بند کرتے رہیں گے۔ نماز کےعلاوہ کسی بھی ملی تعمیری کام کے لئے مسجد کے دروازے بند کرکے سمجھتے رہیں گے کہ وہ مسجدوں کی حفاظت کررہے ہیں، جبکہ وہ نہ صرف ملت کے راستے میں رکاوٹیں کھڑے کررہے ہیں بلکہ کروڑوں غیرمسلم بھائی جو ملحد ہورہے ہیں، اور صدیوں پرانے مذاہب سے بیزار ہوچکے ہیں اور صحیح دین کی تلاش میں ہیں، کمیٹیاں والے ان کے لئے بھی مسجدوں کے دروازے بند کررہے ہیں۔
اس کی ایک وجہ تو بھی ہے کہ اکثر کمیٹی کی صدارتیں یا تو لینڈ گرابرس، پہلوان یا خوب چندہ دینے والے امیر لوگ حاصل کرلیتے ہیں، یا پھر ریٹائرڈ کلرک ٹائپ کے لوگ جو تبدیلی لانے کی ہمت تو نہیں رکھتے، لیکن سختی سے جو سسٹم دادا پڑدادا سے چلا آرہا ہے اسی کو قائم رکھنے کے لئے بضد ہوتے ہیں۔ قرآن نے اس نفسیاتی بیماری کی نشاندھی کی ہے کہ ”جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ایمان لاو اس پر جو تم پر نازل کی گئی ہے تو یہ کہتے ہیں ہم تو اسی پر ایمان لائیں گے جو ہمارے باپ دادا کرتے تھے، کیا ہمارے باپ دادا بیوقوف تھے؟“
دادا پڑدادا کے زمانے کے سسٹم پر چلتے رہنے کی وجہ سے ہم آج سیاسی، اخلاقی، معاشی اور سماجی طور پر کہاں آکر پہنچ گئے ہیں، اس کا ہر ایک اندازہ ہے۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم سسٹم میں تبدیلی لائیں؟ رسول اللہ ﷺ کے دور میں چور کے ہاتھ کاٹے جاتے تھے۔ لیکن حضرت عمرؓ نے اس کو مخصوص حالات میں ملتوی کیا۔ کیونکہ شریعت میں لگے بندھے اصول نہیں ہوتے بلکہ ہر حکم کے پیچھے منشائے شریعت مقدم ہوتی ہے۔
ایک عمل جو آج سے پچاس سال پہلے احسن تھا، وہ آج بھی احسن ہو، ایسا ضروری نہیں۔ اور جو عمل آج احسن ہو، وہ آئندہ پچیس پچاس سال بعد بھی احسن ہو یہ بھی ضروری نہیں۔ منشائے شریعت یعنی Ultimate goal of Shariya پیشِ نظر رہنی چاہئے نہ کہ بزرگوں کا ہی Fixedطریقہ۔ ورنہ مذہب ٹھہرے ہوئے پانی کی طرح ہوجاتا ہے جس میں کیا کیا پیدا ہوجاتا ہے یہ سب جانتے ہیں۔ ایسے کئی مسائل ہیں جو ٹھہرے ہوئے پانی کی طرح دین کو خراب کررہے ہیں۔
اگر آپ ہم سے رابطہ کریں تو ہم تفصیل سے رہنمائی کرینگے۔ہمارا نمبر 9642671721 ہے۔ جہاں تک خطبوں کا تعلق ہے، ہونا یہ چاہئے کہ اردو خطبہ کو عربی خطبہ سے الگ کیا جائے۔ جو عالم، امام یا خطیب پہلے سے مقرر ہے وہ عربی خطبہ دے اور نماز پڑھائے۔ جو خطبہ یا تقریر اردو میں ہو اس کے لئے اپنے اپنے شہر کے قابل افراد کو مختلف موضوعات پر قرآن و حدیث کی روشنی میں بات پیش کرنے کا موقع دیا جائے۔اور اس کے ساتھ ساتھ جتنے نوجوان مختلف آرگنائزیشنس کے تحت دعوت و تبلیغ، تریبت، Empowerment، کونسلنگ، ہیلتھ، یا کسی بھی فن میں مہارات حاصل کرنے کی تربیت دے سکتے ہیں، بلا لحاظ تفریق مسلک ان کو مسجد میں جگہ دی جائے اور مسجدوں کو فلاحِ عام کا مرکز بنایا جائے۔ مسجدیں اب اسی سے آباد ہوں گی۔ ورنہ پانچ دس سال بعد مسجدیں خالی ہوجائینگی۔