ابھی چند دن قبل 10 دسمبر کو پوری دنیا میں یوم حقوق انسانی کے طور پر منایا گیا، ہمارے یہاں یہ اب رسم سی بن گئی ہے ، 10 دسمبر 1948ءکواقوام متحدہ کی مجلس عام نے عالمی حقوق انسانی کے نام سے ایک دستاویز جاری کیا تھا، جس کے بہت سارے دفعات اسلام کے حقوق انسانی منشور سے لیے گئے تھے، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اکرام انسانیت اور احترام آدمیت کا جو درس دیا تھا وہ اتنا جامع اور بقاءباہم کے لیے اس قدر عملی ہے کہ کسی اور منشور اور مینو فیسٹو کی ضرورت نہیں ہے ، ان اصولوں کو حلف الفضول، میثاق مدینہ اور خطبہ حجة الوداع میں بآسانی دیکھا جا سکتا ہے، قرآن کریم میں اکرام آدمیت اور قتل وغارت گری سے احتراز اور روئے زمین پر فساد پھیلا نے سے گریز کا جو درس دیا گیا ہے اس کی نظیر کہیں اور نہیں ملتی۔
عالمی حقوق انسانی کا جو دستاویز اقوام متحدہ نے تیار کیا ، اس سلسلے میں حساسیت پیدا کرنے کے لیے اس نے 10 دسمبر 1950ءکو یہ فیصلہ لیا کہ 10 دسمبر کو یوم حقوق انسانی کے طور پر منایا جائے، اقوام متحدہ کا ماننا ہے اس کی وجہ سے لوگوں میں سماجی ، ثقافتی، اور جسمانی حقوق کے سلسلے میں بیدار ی پیدا ہوگی اور وہ آزادی ، مساوات اور عزت نفس کے ساتھ زندگی خود بھی گذارنے کے لیے تیار ہوں گے اور دوسروں کو بھی اس کا موقع دیں گے۔
ہندوستانی دستور کے باب 3میں بنیادی حقوق کے ضمن میں اس کا تذکرہ موجود ہے اور ان حقوق کی ان دیکھی یا پامالی کرنے والوں کے لیے عدالت کے فیصلے کے مطابق سزا بھی دی جا سکتی ہے، لیکن ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا میں جس طرح انسانی حقوق کونظر انداز کرکے نسل، رنگ، جنس ، زبان ، مذہب وغیرہ کے حوالہ سے تفریق کی جا رہی ہے ، وہ جگ ظاہر ہے، حقوق کا ذکر تو ہے، لیکن ان کی تنفیذ نہیں ہو پا رہی ہے، تاریخ کا سیاہ باب ہے۔
اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ لوگوں نے حقوق اور فرائض کو الگ الگ سمجھ رکھا ہے ، اپنے حقوق کے سلسلے میں سب حساس ہیں، لیکن اپنے فرائض کی ادائیگی میں سستی اور کاہلی سے کام لیتے ہیں، حالاں کہ سماجیات کا مشہور مقولہ ہے کہ حقوق وفرائض میں چولی دامن کا ساتھ ہے، دونوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا، بہت ساری صورتوں میں حق دینا آپ کے فرائض میں شامل ہوجاتا ہے، آپ نے اگر اس طرف توجہ نہیں دیا تو یقینا دوسرے کی حق تلفی ہوجائے گی۔
ہندوستانی دستور میں پہلے سات بنیادی حقوق کا ذکر کیا گیا تھا، جن میں مالیات بھی شامل تھا، لیکن دستور کی چالیسویں ترمیم جو 1978ءمیں کی گئی تھی، اس میں مالیاتی حقوق کو دستور کی دفعہ 300ئ(اے) میں رکھ دیا گیا ، چنانچہ اب صرف چھ بنیادی حقوق ہیں، جن میں مذہبی، تعلیمی ، ثقافتی آزادی بھی شامل ہے، استحصال کے خلا ف آواز اٹھانے کا حق بھی اس کا ایک حصہ ہے، مرکزی اور ریاستی سطح پر انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے دو کمیشن بنے ہوئے ہیں۔
ابتدائی اندازے کے مطابق 2022ءمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے سات ہزار سات سو ساٹھ(7760) معاملے درج ہوئے، پہلے سے چلے آ رہے اور اس سال درج ہوئے مجموعی مقدمات میں سے آٹھ ہزار سات سو سترہ(8717) معاملات حل کیے جا سکے ، جبکہ نئے پرانے چودہ ہزار تین سو چورانوے (14394)معاملات آج بھی کمیشن کے سامنے زیر غور ہیں، یہ وہ معاملات ہیں جوقومی حقوق کمیشن کے سامنے درج ہوئے 2022_2023ءمالیاتی سال میں اس میں مزید اضافہ کا امکان ہے اور اسے بڑھ کر انہتر ہزار چھ سو دس تک پہونچ جانے کی امید کی جا رہی ہے۔
بہار ریاستی انسانی حقوق کمیشن کی بات کریں تو معلوم ہوگا کہ چھ ہزار چھ سو تہتر(6673) شکایتیں کمیشن کو ملیں، اچھی بات یہ ہے کہ بہار انسانی حقوق کمیشن نے چھ ہزار ایک سو اناسی(6179) معاملات کو نمٹانے میں کامیابی حاصل کی، ان میں چالیس سے پچاس فی صد معاملات تو محکمہ پولیس ہی سے متعلق تھے۔
اس کے علاوہ بہت سارے معاملات ایسے ہیں جو کمیشن کے سامنے مختلف رکاوٹوں کی و جہ سے آ ہی نہیں سکے، اگر بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی ایسی ہی کثرت رہی تو یوم حقوق انسانی منانے کا حاصل ہی کیا رہ جائے گا، سب لوگ اپنی ذمہ داری سمجھنے لگیں، ان میں افراد ، جماعتیں، سرکاریں سبھی شامل ہیں، تبھی بنیادی حقوق کی حفاظت ممکن ہو سکے گی۔