یروشلم : اسرائیل نے مقبوضہ بیت المقدس میں سال 2022 کے دوران 600 سے زائد فلسطینی بچوں کو گھروں میں نظر بند رکھا ہے۔
فلسطین کے ادارہ برائے امورِ اسیران کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حکام نے 2015 میں گھروں میں نظر بندی کا نفاذ شروع کیا تھا جس کا دائرہ بتدریج وسیع کیا جا رہا ہے۔
تل ابیب انتظامیہ کی جانب سے مذکورہ اطلاق کے دائرہ کار میں سال 2022 کے دوران بیت المقدس میں 600 سے زائد بچوں کو گھروں میں نظر بند رکھا گیا۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیلی قانون 14 سال سے کم عمر بچوں کو قید کی سزا دینے کی اجازت نہیں دیتا لیکن اسرائیلی حکام نے اس کے جواب میں بیت المقدس کے 14 سال سے کم عمر بچوں کو سزا دینے کے لئے گھروں میں نظر بند کرنا شروع کر دیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک فلسطینی بچہ اس وقت تک نظر بند رکھا جا سکتا ہے کہ جب تک اس کے بارے میں جاری تفتیش مکمل نہیں ہو جاتی۔ بچوں کی نظر بندی چند دن سے ایک سال تک کے مختلف دورانیوں پر محیط ہو سکتی ہے۔ لیکن اسرائیلی عدالت سے فیصلہ جاری ہونے کے بعد کسی فلسطینی بچے کو دی جانے والی سزا میں یہ نظر بندی شامل نہیں کی جاتی، بچوں کی اس نظر بندی کو عدالت کے سامنے بیان ہی نہیں کیا جاتا۔
رپورٹ کے مطابق گھروں میں نظر بند کئے گئے بچوں پر نگاہ رکھنے کے لئے انہیں ایک برقی کلائی بند پہنایا جاتا ہے اور گھروں سے باہر نکلنے سے منع کر دیا جاتا ہے۔ نظر بندی سے بچے نہ صرف خوف زدہ ہوجاتے ہیں بلکہ اس کی وجہ سے بچے تعلیم سمیت متعدد انسانی حقوق سے محروم ہو جاتے ہیں اور ان کا مستقبل تاریک بن جاتا ہے۔
یہ رپورٹ صرف فلسطینی بچوں کی نظربندی سے متعلق ہے، اسرائیل کی جانب سے چھاپہ ماری، فلسطینی افراد کی شہادت کے بعد یتیم ہونے والے بچوں اور اسرائیلی مظالم سے متاثر ہونے والے بچوں کے اعداد و شمار علیحدہ ہیں۔
ماہ اگسٹ میں اسرائیل فلسطین جنگ کے دوران ہزاروں فلسطینی بچے یتیم اور بے گھر ہوئے ہیں۔