جس طرح اسلام اور مسلمانوں کےلئے ادھر چند سالوں ملکی حالات انتہائی صبر آزما رہے اور باطل طاقتیں جس طرح اسلام اور مسلمانوں کو ایمان وعقائد سے برگشتہ کرنے کی تگ ودو میں رہیں اورارتداد کی چوطرفہ خبریں موصول ہوتی رہیں وہ ایک کلمہ گو شخص کے لئے بڑی تکلیف دہ ہیں اوریہ کسی طوفان سےکم نہیں ایسے حالات میں گلی محلے سے لے کر کالج ویونیورسٹی کے ماحول تک امت کے ہر فرد کو دین کی بنیادی تعلیمات سے آگاہی کا نظم اور اس کی فکر کرنے کی سخت ضرورت ہے تاکہ مسلمانوں کے ہر بچے کے ایمان وعقائد اسلامی شعائر وتشخصات کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اعمال واخلاق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت وسنت سے روشناش کرایا جا سکے اور ارتداد کی کوئی بھی آندھی ہمارے معاشرے کو متاثر نہ کرسکے
اس وقت ملک کے جو حالات ہیں دشمنان دین جس طرح مذہب اسلام کو نشانہ بنا کر اہل اسلام اور مسلمانوں کے لئے عرصہ حیات تنگ کرتے جارہے ہیں، اسلام اور شعائر اسلام کو بدنام کیا جارہاہے وہ حالات پر نظر رکھنے والے کسی بھی باشعور انسان سے پوشیدہ نہیں ہے کبھی اذان توکبھی نماز، کبھی حجاب تو کبھی طلاق، کبھی تعدد ازوازج توکبھی مدارس ومساجد ، کبھی مدارس ومکاتب کے نظام ونصاب پر اعتراض کرکے شکوک وشبہات پیدا کرنے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے ، مسلم نوجوانوں کو احساس کمتری میں مبتلاء کرنے اور ان کی آواز کو دبانے کےلئے کبھی بلڈوزر تو کہیں بےقصور مسلم نوجوانوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالا جاتا ہے اورطرح طرح سے دین سے بے زار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے بلکہ آزاد خیال اور جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کے درمیان کئے جاچکے ہیں۔
اسلاموفوفیا کا پڑھتا ہوا رجحان بھی ہمارے مسلم معاشرے میں نوجوان نسلوں کو دین وایمان سے متزلزل کرنے کا ایک ناپاک حربہ ہے اور اس نفرت بھری سیاست اور مخصوص ذہنیت کے حامل ، غیر ذمہ دارانہ صحافت نے دین ومذہب کے خلاف جو سازشی جال بنا ہے اس کی وجہ سے معاشرہ جس تیزی کے ساتھ متاثر ہوا ہے اس نے مسلم نوجوانوں میں دین سے بے زاری مزید بڑھا دی نیز ایمان وعقائد کی کمزوری ، اعمال واخلاق سے دوری سیرت وسنت سے بے اعتنائی ، اور رسوم وبدعات جکڑ بندیوں نے جانے انجانے شرکیہ اعمال وافعال تک ہمارے معاشرے میں سرایت کرنے لگے ہیں بلکہ ہمارے دروازوں پر دستک دینے لگے جس کے نتیجے میں آہستہ آہستہ دین سے دوری دینی تعلیم سے بےتوجہی بڑھتی گئی۔
یہی وجہ ہے کہ آج تیزی کے ساتھ ارتداد اور غیرمذہب میں شادیاں عام ہوتی جارہی ہیں معاشری انسانی فساد وبگاڑ کی طرف بڑھ رہاہے نشہ کی لت سود خوری آج ہمارے معاشرے کا ناسور بن چکا ہے صورت حال بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے آنے والے حالات اس سے بھی زیادہ تاریک اور بھیانک ہوسکتے ہیں خاص کر مدارس اسلامیہ دینی نظام کے پاسبانوں کے لئے اپنے قدیم دینی نظام ونصاب کا برقرار رکھنا آسان نہ ہوگا کیونکہ مدارس اسلامیہ اور دینی نصاب ونظام خاص طور پر ان لوگوں کے رڈار پر ہیں ، آئے دن مدارس کے خلاف بیان بازیاں ،اس کے نصاب پر اعتراض ، مدارس کے نظام پر شکوک کا لامتناہی سلسلہ ہے۔
افسوس اس بات ک ہے کہ ہمارا ذمہ دار طبقہ طوفان کی پیش گوئیوں کے بعد بھی خاموش تماشائی بنا اپنے بچوں اور آنے والی نسلوں کے دین وایمان کی حفاظت کے لئے ابھی بھی سنجیدہ نہیں ہے
ایسے حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے چھوٹے چھوٹے مکاتب کے نظام کو مضبوط کرنے کی فکر کریں اور مکاتب کو مساجد کے نظام کے ساتھ جوڑ کر محلہ وار اس نظام کو مستحکم کریں اور ایسے رسائل اور مختصر کتابچے کا انتخاب کریں جو بچوں کی ذہنی سطح اور ان کے نفسیات کا لحاظ رکھ کر تیار کئے گئے ہوں جو اختصار کے ساتھ ایسے جامع ہوں کہ مختصر وقت میں اسے پڑھنے اور پڑھانے سے ایمان وعقائد ، بنیادی دینی تعلیم ، سیرت وسنت کی ایسی تصویر بچے کے دل ودماغ میں نقش کر جائے کہ پھر زندگی کے کسی بھی مرحلے اور کسی بھی حالات میں وہ دندھلی نہ ہو اور ضلالت وگمراہی کا کوئی بھی طوفان دل کے نہاخانوں سے اسے مٹا نہ سکے اور مال ودولت ، عہدہ ومنصب کا کوئی لالچ اس کے ایمان وعقائد کو ڈگمگا نہ سکے۔
خاص طور پر آنے والی نئی نسلیں جو اسکولوں، کالج ویونیورسٹیوں کے آزاد ماحول میں پروان چڑھ رہی ہیں ان کے ایمان وعقائد کی حفاظت اور اعمال واخلاق کے زیور سے آراستگی کا ذریعہ ثابت ہوں اور اجتماعی طور پر اس بات کی کوشش ہو کہ مسلمان کا ہر بچہ اسے ضرور پڑھے ، خاص طور سے اسکول وکالج میں پروان چڑھنے والا جو عام طور پر دین وایمان، سیرت وسنت کے فیضان سے محروم رہ جاتا ہے۔
اس التجا پر قوم وملت کے ہر فرد کو غور فکر کی دعوت ہے
شاہ دین ہمایوں کے اس خطرے کے اظہار کے ساتھ کہ
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
اللہ تعالی امت مسلمہ کےایمان وعقائد اور اسلامی شعائر وتشخصات کی حفاظت واشاعت کی سبیل پیدا فرما اور دشمنان دین کے شر سے حفاظت پیدا فرما۔