آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی
قومی خبریں

شاہی عید گاہ سروے معاملہ پر اسد الدین اویسی کا رد عمل

لکھنؤ: مجلس اتحاد المسلمین کے صدر و رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے پیر کے روز متھرا میں شاہی عیدگاہ مسجد کمپلیکس کے مقام کے سروے کرنے سے متعلق فیصلہ پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے ٹویٹ کیا۔ انہوں نے لکھا کہ ‘میرے خیال میں یہ حکم غلط ہے۔ سول کورٹ نے 1991 کے ایکٹ کی خلاف ورزی کی ہے، میں سول کورٹ حکم سے متفق نہیں ہوں

اس سے قبل بھی 24 دسمبر کو اسد الدین اویسی نے اس معاملے میں ٹویٹ کیا تھا۔ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ بابری مسجد کے فیصلے کے بعد میں نے کہا تھا کہ اس سے سنگھ پریوار کی شرارت کو فروغ ملے گا اور ان کے حوصلے بلند ہوں گے۔ اب متھورا کی عدالت نے شاہی عیدگاہ کمپلیکس کے اندر موجود شواہد کی جانچ کے لیے ایک کمشنر بھی مقرر کیا ہے۔ یہ حکم عبادت گاہوں کے قانون کے باوجود اس طرح کی قانونی چارہ جوئی پر پابندی کے باوجود منظور کیا گیا۔

واضح رہے کہ 8 دسمبر کو سری کرشنا جنم استھان عیدگاہ معاملے کو لے کر سول جج سینئر ڈویژن کی عدالت میں ایک درخواست دائر کی گئی تھی۔ جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ مذکورہ مقام کا موقع پر معائنہ کرنے کے بعد حکومتی امین کی رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے۔ عدالت میں درخواست منظور کرتے ہوئے سماعت 20 دسمبر کو مقرر کی گئی۔ لیکن 20 دسمبر کو کوئی کام نہ ہونے کی وجہ سے اس معاملے کی سماعت نہیں ہو سکی۔ جس کے بعد 23 دسمبر کو مدعی کے عرضی پر فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے عیدگاہ کے امین سروے کا حکم دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جائے وقوعہ کے متنازع جغرافیائی محل وقوع کی سروے رپورٹ 20 جنوری تک حکومتی امین موقع پر بھجوا کر عدالت میں پیش کی جائے۔

خیال رہے کہ عبادت گاہوں کا قانون 1991 میں پی وی نرسمہا راؤ کی کانگریس حکومت کے دوران نافذ کیا گیا تھا۔ اس ایکٹ کے مطابق 15 اگست 1947 سے پہلے وجود میں آنے والے کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ کو کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اس ایکٹ میں کہا گیا تھا ہے کہ اگر کوئی اس ایکٹ کے قواعد کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اسے تین سال تک قید ہو سکتی ہے۔ جرمانہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔