اسلام جہاں ایک طرف دوسری تہذیبوں اور ثقافتوں سے اخذ و استفادہ میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کرتا اور الحکمۃ ضالۃ المؤمن حیث وجدہا فہو أحق بہا (حکمت مومن کا گم شدہ سرما میں ہے۔ جہاں بھی اسے پائے وہ اس کا سب سے زیادہ مستحق ہے) کے اصول کے تحت ان کی اچھی چیزوں کو اختیار کرنے کی پوری اجازت دیتا ہے، وہیں دوسری طرف وہ یہ شرط بھی عائد کرتا ہے کہ وہ چیز میں روح شریعت سے متصادم اور اس کی بنیادی تعلیمات واقدار سے متغائر نہ ہوں۔
دوسری اہم بات یہ کہ وہ اپنا امتیاز اور تشخص قائم رکھنا چاہتا ہے۔ وہ اس چیز پر اصرار کرتا ہے کہ اس کے ماننے والے اپنے عقائد، طریقہ ہائے عبادت، معاشرتی طور طریقوں، عادات و اطوار اور رویوں میں دوسری قوموں سے اس طرح مشابہت نہ اختیار کر لیں کہ ان کا کوئی امتیاز ہی باقی نہ رہے، ان کا تشخص ختم ہو کر رہ جائے اور وہ ان میں ضم اور کم ہو جا ئیں۔
دوسری قوموں سے تشبہ سے اجتناب پر اسلام کا اصرار بے جانہیں ہے۔ ہر زندہ اور طاقت ور تہذیب اور ثقافت کو یہی کرنا چاہیے۔ کتنی قومیں ہیں جنھوں نے ذہنی غلامی، پس ماندگی اور احساس کم تری کے نتیجے میں دوسری طاقت ور اور غالب قوموں کی مشابہت اختیار کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی اپنی انفرادیت ختم ہوکر رہ گئی اور آہستہ آہستہ و دفنا کے گھاٹ اتر گئیں۔
*یہود و نصاریٰ کی مشابہت اختیار کرنے کی ممانعت*
نزول قرآن کے زمانے میں یہودیت اور نصرانیت دو بڑے مذاہب کی حیثیت سے سرزمین عرب میں موجود تھیں۔ دونوں کا دعوی تھا کہ دین حق ان کے پاس ہے۔ دونوں کے پیروکارا پنا رشتہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے جوڑتے تھے، جو مسلمانوں کے بھی جدامجد تھے۔
دونوں کے اپنے اپنے عقائد،طریقہ ہائے عبادت اور معاشرت و معاملات کے اصول وضوابط تھے۔ دونوں کے ماننے والوں سے مسلمانوں کے سماجی روابط تھے۔ اس بنا پر قوی امکان تھا کہ مسلمان کہیں غیر شعوری طور پر ان کا اثر قبول نہ کر لیں اور ان کی بعض ایسی چیز میں نہ اختیار کر لیں جو اسلام کی روح، مزاج اور بنیادی تعلیمات کے خلاف ہوں۔ اس لیے مسلمانوں کو بار بار متنبہ کیا گیا کہ وہ اہل کتاب (یہودونصاری) کی مشابہت نہ اختیار کر میں۔ چند آیات ملاحظہ ہوں :
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَکُونُوا کَالَّذِیْنَ آذَوْا مُوسَی (الاحزاب:۶۹) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ان لوگوں کی طرح نہ بن جاؤ جنھوں نے موسی کو اذیتیں دی تھیں۔ ‘‘
وَلاَ تَکُونُواْ کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُواْ وَاخْتَلَفُواْ مِن بَعْدِ مَا جَاء ہُمُ الْبَیِّنَاتُ وَأُوْلَـئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْم(آل عمران:۱۰۵)
’’اوران لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جوفرقوں میں بٹ گئے اور کھلی واضح ہدایات پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے۔‘‘
وَلَا تَکُونُوا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللَّہَ فَأَنسَاہُمْ أَنفُسَہُمْ (الحشر: ۱۹) ’’ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے انھیں اپنانفس بھی بھلا دیا۔‘‘
_مسلمان نقالی سے احتراز کریں_
ان آیات کا انداز خطاب قابل توجہ ہے۔ اگر کسی ایک مخصوص کام سے منع کرنا مقصود ہوتا تو اس کی صراحت کر دی جاتی۔ اس کے بجائے عمومی انداز اختیار کیا گیا۔ اس سے اشارہ ملتا ہے کہ قرآن صرف انہی مخصوص کاموں میں دوسروں کی مشابہت کرنے سے نہیں روک رہا ہے، بلکہ وہ چاہتا ہے کہ مسلمان زندگی کے تمام طور طریقوں کی نقالی کرنے سے احتراز کر میں۔
اس سلسلے میں اللہ کے رسول ﷺ کے بھی ارشا وموجود ہیں۔ ایک مشہور حدیث حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول سی ایم نے ارشادفرمایا:
من تشبہ بقوم فہو منہم ( سنن ابی داؤد) ’’ جس شخص نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے۔‘‘
_اسلام کا اصولی موقف_
تشبّہ کے مسئلے میں ایک بنیادی سوال میں سامنے آتا ہے کہ اسلام میں کن صورتوں میں دوسری قوموں سے مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے اور کن صورتوں میں مشابہت ممنوع نہیں ہے؟ اس سلسلے میں اسلام کا موقف اصولی طور پر درج ذیل نکات کی صورت میں بیان کیا جاسکتا ہے۔
1- انسانی امور کی دوقسمیں ہیں : ایک اضطراری، دوسری اختیاری۔ اضطراری امور سے مراد وہ امور ہیں جو انسانی اختیار وارادہ کے دائرے سے باہر ہیں۔ مثلاً انسان کے خلقی اوضاع و اطوار اور جہتی تقاضے، بھوک پیاس لگنا، تن ڈھانکنا، مدنی الطبع ہونا۔ یہ امور ممانعت تشبّہ کے دائرے سے خارج ہیں۔
2 – اختیاری امور بھی دو طرح کے ہیں : ایک وہ جن کی مذہبی حیثیت ہو اور دوسرے وہ جو از قسمِ عادت و معاشرت ہوں۔ مذہبی چیزوں کے معاملے میں اسلام میں دوسری قوموں کی مشابہت اختیار کر نے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ مثلاً نصاری کی طرح سینے پر صلیب لٹکانا، ہندوؤں کی طرح ز نار باندھنا اور قشقہ لگانا۔
3- عادت و معاشرت سے متعلق وہ امور جو کسی قوم کا شعار اور امتیازی نشان ہوں، ان میں مشابہت اختیار کر نے کو اسلام نا پسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے۔
_کھانے پینے کی چیزوں میں اعتدال اور توازان_
اسلام کی تعلیمات اعتدال و توازن پر مبنی ہیں۔ دوسری قوموں نے جو بے اعتدالیاں اختیار کر لی ہیں اور افراط وتفریط کا شکار ہوگئی ہیں، اسلام اپنے ماننے والوں کو ان سے روکتا ہے، ان معاملات میں ان کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کرتا ہے اور جادۂ اعتدال پر قائم رہنے کا حکم دیتا ہے۔
مثال کے طور پر گزشتہ قوموں میں سے خاص طور پر عیسائیوں نے تقویٰ اور پرہیز گاری کے غلط تصور کے تحت کھانے پینے کی بعض چیزوں کو نہیں اللہ تعالی نے حلال کر رکھا تھا، اپنے اوپر حرام کر لیا تھا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اس رجحان پر ضرب لگائی اور اللہ کی عطا کردہ تمام نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کا حکم دیا۔ حضرت قبیصہ بن ہلب اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک کے شخص نے خدمت نبوی میں عرض کیا کہ کھانے کی فلاں چیز میں نا پسند کرتا ہوں۔ آپ ؐ نے فرمایا:
لا یتخلّجن فی صدرک شیٔ ضارعت منہ النصرانیۃ (سنن ابی داؤد: ۳۷۸۴) ’’تمھارے دل میں کوئی ایسی بات نہ آنے پائے جس سے تمھاراعمل نصرانیت کے مشابہ ہوجائے۔‘‘
_لباس اور وضع قطع کا مسئلہ_
دوسری قوموں سے ظاہری مشابہت میں سب سے نمایاں مسئلہ لباس اور وضع قطع کا ہے۔ اس سلسلے میں اسلام نے واضح ہدایت دی ہیں۔ اس نے مسلمانوں کے لیے کوئی مخصوص لباس لازم نہیں کیا ہے، بلکہ اس کی کچھ شرائط بیان کر دی ہیں۔ جس لباس میں بھی وہ شرائط پوری ہوتی ہوں اس کے پہننے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: یَا بَنِیْ آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَیْْکُمْ لِبَاساً یُوَارِیْ سَوْء َاتِکُمْ وَرِیْشاً (اعراف:۲۲) ’’اے اولاد آدم! ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمھارے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمھارے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو۔‘‘
ستر اور زینت دو بنیادی خصوصیات ہیں، جولباس میں ہونی چاہئیں۔ اسلام نے عورتوں کو مردوں جیسے لباس اور مردوں کو عورتوں جیسے لباس پہننے سے منع کیا ہے۔ اسی طرح اسلام چاہتاہے کہ مسلمانوں کا لباس ایسا ہو کہ وہ دوسری قوموں سے ممیز رہیں۔
مخلوط آبادیوں میں اس فرق و امتیاز کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ اگر کوئی شخص دوسری قوم کا مخصوص لباس یا ان کی وضع قطع اختیار کرتا ہے تو اس سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ مسلمان ناواقفیت کی بنا پر اس کے ساتھ غیرمسلموں کا سا برتاؤ کرنے لگیں۔ اسی حکمت کے پیش نظر آں حضرتﷺ نے مسلمانوں کو ایسالباس پہنے سے منع فرمایا جو یہود کی پہچان بن گئے تھے۔ حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسولﷺ نے ارشادفرمایا:
إذا کان لأحدکم ثوبان قلیصل فیہما، فإن لم یکن إلا ثوب واحد فلیتزر بہ، ولا یشتمل اشتمال الیہود(سنن ابی اداؤد: ۶۳۵)
’’اگر تم میں سے کسی کے پاس دو کپڑے ہوں تو دونوں کو پہن کر نماز پڑھے۔لیکن اگر کسی کے پاس ایک ہی کپڑاہوتو اسے تہبندکی طرح باندھ کر نماز پڑھے۔ یہود کی طرح اسے لپیٹ نہ لے۔‘‘
بعض قوموں میں رواج ہے کہ پورا سر نہیں مونڈواتے، بلکہ کچھ حصے کے بال کے چھوڑ وا دیتے ہیں۔ شاید یہود بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ اسی لیے صحابہ کرام نے ایسا کرنے سے منع کیا۔ حضرت حجاج بن حسان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میری بہن مجھے لے کر حضرت انس بن مالک کی خدمت میں گئیں۔ اس وقت میں بہت چھوٹا تھا۔ میرے سر میں بالوں کے دو گچھے تھے۔ انھوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا، برکت کی دعا دی اور فرمایا: ان دونوں گچھوں کو منڈ وا دو۔ یہ یہود کا طریقہ ہے (سنن ابی داؤد: ۴۱۹۷)
وضع قطع میں ایک مسئلہ داڑھی کا ہے۔ آں حضرت ﷺ کے زمانے میں ایک طرف مجوسی داڑھیاں منڈواتے اور بڑی بڑی مونچھیں رکھتے تھے، دوسری طرف یہود داڑھی اور مونچھ دونوں بڑی بڑی رکھتے تھے۔ اللہ کے رسول ﷺنے صریح الفاظ میں حکم دیا کہ داڑھی بڑھائی جائے اور مونچھیں کتروائی جائیں۔ حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ ہم نے ارشادفرمایا:
خالفوا المشرکین ووفرو اللحو واحفوا الشوارب (صحیح بخاری: ۵۸۹۴)’ مشرکوں کی مخالفت کرو۔ داڑھیاں بڑھاؤ اور مونچھیں کتر و۔‘‘
_صفائی ستھرائی_
یہود صفائی ستھرائی کا مطلق خیال نہیں رکھتے تھے۔ رہائشی علاقوں کی گندگی ان کی پہچان بنی ہوئی تھی۔ اللہ کے رسول ﷺ نے صاف ستھرا رہنے اور اپنے گھروں اور ماحول کو پاک وصاف رکھنے پر زوردیا۔ حضرت سعد سے روایت ہے کہ آپ نے ارشادفرمایا:
إن اللہ طیب یحب الطیب، نظیف یحب النظافۃ… فنظفوا أفنیتکم ولا تشبہوا بالیہود( جامع ترمذی:۲۷۹۹)
’’اللہ پاک ہے، پا کی کو پسند کرتا ہے، نظیف ہے انخلافت کو پسند کرتا ہے…اس لیے اپنے گھروں کو صاف ستھرارکھواور یہود کی مشابہت نہ اختیار کرو۔‘‘
تشبہّ کے سلسلے میں یہ چند مثالیں ہیں۔ ان سے اسلام کا مزاج سمجھا جا سکتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کی مجموعی روح میں ہے کہ دوسری قوموں سے تعامل کے سلسلے میں اعتدال کی روش اختیار کی جائے۔ نہ تو ان سے بالکل ترک قطع کیا جائے اور ان کی ثقافتوں میں موجود اچھی چیزوں کو اختیار کرنے سے بالکلیہ احتراز کیا جائے اور نہ ان کی تمام چیزوں کو اس طرح قبول کر لیا جائے کہ اسلام کا اپنا امتیاز اور شخص ختم ہو کر رہ جائے۔