نئی دہلی: امیر الہند مولانا سید ارشد مدنی نے مسلمانان ہند کے تئیں جمعیۃ علماء ہند کے کارناموں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ملک کی تقسیم کے بعد پوری جمعیۃ ایک امتحان میں مبتلا تھی، ایک طرف جمعیۃ علماء ہند نے اپنوں کی شدید مخالفت کے باوجود تقسیم وطن کو قبول نہیں کیا، دوسری طرف ہندستان میں رہنے والے مسلمانوں کے مستقبل کا مسئلہ درپیش تھا۔
صدسالہ تقریبا ت کے تحت جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی کے زیر نگرانی حضرت مولانا فخرالدین احمد مرادآبادیؒ اور حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ کی حیات و خدمات پر دو روزہ سیمینار آج میں صدارت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہریانہ و پنجاب میں مسلمانوں کا انخلا ہو رہا تھا، دہلی سے بھی مسلمانوں کو نکالنے کی سازش ہورہی تھی۔ اس وقت مولانا حفظ الرحمن سے یہ بھی کہا گیا کہ آپ جن جن خاندانوں کے بارے میں چاہتے ہیں، ان کی فہرست دیدیں ، ہم ان کی حفاظت کریں گے۔ باقی سارے مسلمانوں کی فکر چھوڑ دیں، تو مولانا نے برجستہ جواب دیا کہ یہ ہرگز منظور نہیں کہ صرف حفظ الرحمن کی جان بچ جائے اور باقی سب خطرے میں رہیں۔
مولانا ارشد مدنی نے حضرت مولانا فخرالدین احمد کی قوت حافظہ کو فقید المثال بتاتے ہوئے کہا کہ انھوں نے محض ایک ماہ میں مکمل قرآن حفظ بھی کیا اور تراویح میں سنا بھی دیا۔ انھوں نے کہا کہ ملک نازک دور سے گزررہا ہے، بہت سے دانشور اور مفکرین ان حالات پر لگاتار فکرمندی کا اظہار کررہے ہیں، مگر افسوس سرکار اس کے ازالے میں ناکام ہے۔ انھوں نے کہا کہ تقسیم وطن کے وقت بھی حالات بہت خراب تھے، اس دور کے قائدین بالخصوص مجاہد ملتؒ نے بڑی پامردی سے ان حالات کا مقابلہ کیا۔ اس لیے ہمیں ان سے رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ مولانا مدنی نے تقسیم وطن اور متحدہ قومیت کے سلسلے میں جمعیۃ علماء کے مستحکم نظریے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ان اکابر نے جو کچھ کہا تھا وہ دین واحکام شریعت کے مطابق تھا، محض وقتی نظریہ یا سیاسی مصلحت پسندی نہ تھی۔
مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے امیر مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند کی ایک روشن تاریخ ہے، اس جماعت کے اکابر، امت کے اساطین اور نمونہ تھے، آج جس قومی اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اس طرح کی طاقتیں ماضی میں کم نہ تھیں، اس وقت مولانا آزاد ؒ اور مولانا حفظ الرحمن ؒ نے ان سے سینہ سپر ہو کر مقابلہ کیا ، آج بھی اسی حوصلہ اور قیادت کی ضرورت ہے۔
نائب امیر الہند مفتی محمد سلمان منصورپوری نے کہا آزادی کے بعد حضرت مجاہد ملتؒ کا دینی تعلیم پر کافی زور تھا ، وہ فرماتے تھے کہ آنے والی نسلوں کو ایمان پر قائم رکھنے کی بڑی ضرورت ہے اور دینی تعلیم مسلمانوں کی بنیاد ہے ۔وہ جمعیۃ کے زیر نگرانی دینی تعلیمی بورڈ کے بانیوں میں سے تھے جس کے زیر اثر آج ملک کے گوشے گوشے میں مکاتب قائم ہیں۔
مشہور مورخ مولانا نورالحسن راشد کاندھلوی نے کہا کہ مولانا حفظ الرحمن شروع سے ہی بہت جرات مند اور ہمت و حوصلہ والی شخصیت تھے اور بقول مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ مجاہد ملت کے خطاب کے سچے حق دار تھے، سابق وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے مولانا کے بارے میں فرمایا تھا کہ لیڈر دولت اور حکومت سے نہیں بنتا بلکہ لیڈر پیدا ہوتا ہے، یہ خصوصیت مولانا میں بخوبی پائی جاتی ہے۔
اس موقع پر جمعیۃ علماء ہند کے ناظم عمومی مولانا حکیم الدین قاسمی نے تمام مقالہ نگاروں، کنوینرس حضرات کا شکریہ ادا کیا، انھوں نے اپیل کی کہ جمعہ کے خطبوں اور دینی درسگاہوں میں اپنے اکابر کی قربانیوں کا تذکرہ کیا جائے تا کہ جدید نسل کو ان کے بارے میں پتہ چلے اور ان کے بارے میں نئی نسل کو واقفیت حاصل ہو۔