دکن کو اسلام کا عالمی مرکز بننے کا اعزاز حاصل
حالات حاضرہ

آصفیہ دور میں دکن کو اسلام کا عالمی مرکز بننے کا اعزاز حاصل

حیدرآباد، 23 دسمبر (پریس نوٹ) حضور اکرامؐ نے مدینہ منورہ کو اسلام کا دار الخلافہ بنایا، مدینہ علم و حکمت اور حکومت و سیادت کا بھی دار الخلافہ رہا۔ دار الخلافہ سے ہی اسلامی مشن کو فروغ دیا گیا۔ صحابہ اکرمؓ کو اختیارات عطا کیے گئے۔ حضرت سیدنا ابوبکرؓ، حضرت سیدنا عمرؓ، حضرت سیدنا عثمانؓ کے دور خلافت میں بھی مدینہ ’کیپیٹل آف اسٹیٹ‘ رہا۔ حضرت سیدنا علیؓ نے اپنے دور میں دار الخلافہ کو مدینہ سے کوفہ (عراق) منتقل کیا۔ حضرت سیدنا حسنؓ نے دور میں بھی کوفہ اسلامی ریاست کا دار الخلافہ رہا۔ پھر دارالخلافہ دمشق اور اس کے چند سال بعد بغداد منتقل کیا گیا۔
بغداد پوری دنیا میں علوم و فنون کا مرکز تھا۔ یہ علما، فقہ، سائنسداں، مفکرین اور مفسرین کا مرکز تھالیکن تاتاریوں نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بچا دی۔ سقوطِ بغداد کے دوران کتب خانوں کو آگ لگا دی گئی۔ دجلہ و فراط کتابوں کی راک کی ڈھیر میں تبدیل ہوگئے۔ ان خیالات کا اظہار شاہی مسجد باغ عام میں مولانا احسن بن محمد الحمومی نے دوران خطبہ کیا۔

مولانا احسن نے کہا کہ ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے دور میں ہندوستان کو اسلامی دارلخلافہ کا درجہ ملا۔ دین کا بڑا کام ہندوستان میں انجام پایا۔ ایران و بغداد اور دنیا کے دیگر خطوں کے علما و صوفیا نے ہندوستان کو اپنی فیض رسانی کا مرکز بنایا۔ انگریزوں نے ہندوستان کی اسلامی ریاستوں کو ختم کیا۔ ہزاروں علما کو تہہ تیغ اور اسلامی شناخت و لٹریچر کو ختم کیا گیا۔ اس دور میں بھی امید کی آخری کرن اور ’سرمایہ ملت کی نگہبانی‘ ریاست دکن کررہی تھی۔

ریاست دکن کا رقبہ مہاراشٹر، کرناٹک، تلنگانہ اور آندھرا پر محیط تھا۔ آصف جاہی سلطنت نے مختلف علوم و فنون اور شخصیات کی سرپرستی کی۔ پوری دنیا کے مسلمانوں کو کوئی ضرورت پیش آتی تو امید کی نگاہ دکن کی طرف اٹھتی۔ والیانِ دکن نے مرکز اسلام مکہ مکرمہ میں روشنی کا انتطام کیا۔ دنیا بھر سے علمی سرمایہ سمٹ کر دکن کی طرف لایا گیا۔ دکن کو مرجعت حاصل رہی۔ علما، فضلا، دانشوران، مصنفین، مترجمین اور صوفیا کرام کا یہاں پڑاو رہا۔ اس تاریخ ساز موقع پر ایسی شخصیت کی ضرورت تھی؛ جو سب کیلئے متفق علیہ ہو۔ یہاں کے سربراہانِ مملکت دور اندیش اور عالمِ اسلام کی توقعات کو پورا کرنے والے تھے۔

اللہ تعالیٰ نے ان سلاطین دکن اور عوام کی تربیت کیلئے شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقیؒ کو منتخب کیا۔ جو کہ جامعہ نظامیہ کے بانی تھے۔ آپؒ نانڈیر میں پیدا ہوئے۔ محمکہ مال گزاری میں خلاصہ نویسی کی ملازمت کرتے تھے۔ ایک دفعہ سود کے معاملہ کی فائل آئی تو شیخ الاسلامؒ نے ملازمت کو ترک کردیا۔ جوانی میں ہی والد ماجد کا انتقال ہوا۔ بعد میں آپؒ نے درس و تدریس کا فریضہ انجام دیا اور 1292ھ میں مدرسہ نظامیہ شروع کیا۔ دو سال بعد بغرض ہجرت ارادہ کیا کہ اب مدینہ طیبہ کا ہو کر رہوں گا۔

چند ہی سال میں حضور اکرمؐ خواب میں آکر شیخ الاسلامؒ کو ہدایت دی کہ آپ واپس دکن چلے جائیں، اللہ تعالی وہاں آپ سے بڑا کام لے گا۔ شیخ الاسلامؒ نے اپنے پیر حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کے سامنے یہ تفصیلات بتائی تو انھوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو قبول کرلیا ہے۔ مدینہ سے واپس آکر مدرسہ نظامیہ میں تدریس میں مصروف ہوگئے۔ نواب دکن میر محبوب علی خان کے استاد زمان خان شہید کو مسجد میں تلاوتِ قرآن کے دوران کسی نے قتل کردیا تھا۔ اس دور میں مسلکی تعصبات عروج پر تھے۔

شیخ الاسلامؒ کے یہاں خط آتا ہے کہ آپ کو بادشاہ وقت کا استاد بننے کیلئے طلب کیا گیا ہے۔ پہلے تو آپؒ نے انکار کیا لیکن خواب میں دیکھا کہ آپؒ بادشاہ وقت کے دربار میں لوگوں کی فائلیں لے کر جارہے ہیں، جس کی تعبیر بڑوں نے یوں کی کہ آپؒ صرف بادشاہ کے استاد نہیں ہونگے، بلکہ اس کے ذریعہ پوری مملکت اور عوام کی اصلاح کا کام کیا جاسکتا ہے۔ یوں شیخ الاسلامؒ دکن میں تین شاہی پشتوں کے مربی رہے۔ شیخ الاسلامؒ نے میر محبوب علی خان کے بعد میر عثمان علی خان کی بائیس سال تک تربیت کی۔

مولانا احسن نے کہا کہ آپؒ نے شعبہ تعلیم پر خصوصی توجہ دی۔ جامعہ نظامیہ کے ساتھ عصری علوم کیلئے جامعہ عثمانیہ کو قائم کرنے کا نظریہ پیش کیا۔ علمی کاموں کیلے دارالترجمہ کو قائم کیا گیا۔ آصفیہ کتب خانہ میں دنیا بھر کی کتابوں کو بغرض مطالعہ رکھا گیا۔ دائرۃ المعارف العثمانیہ کے تحت اسلامی علوم کے نادر مخلوطات کو جمع کیا گیا اور ان کی جلد سازی کی گئی۔

حیدرآباد کا قدیم ڈگری کالج انوار العلوم جونئیر کالج شیخ الاسلامؒ کے نام سے قائم کیا گیا۔ میر عثمان علی خان نے حضرت محمد انوار اللہ فاروقیؒ کو صدر الصدور اور ناظم امور مذہبی مقرر کیا۔ آپؒ نے بادشاہ کی قربت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قوم وملت کی زبردست خدمات انجام دیں۔ آپؒ نے امام، خطیب، ناظم، قاضی اور ملا بننے کیلئے مختصر مدتی کورسیس شروع کیے، جس کا اس دور میں ہندوستان بھر میں کہیں تصور نہیں تھا۔ آپؒ ہندوستان بھر کے علما کی علمی پذیرائی کرتے اور ان کیلئے وظیفے جاری کرنے کی سفارش کرتے۔ آپؒ نے ناپ تول کے نظام کو منظم کیا۔ آپؒ نے نواب میر محبوب علی خان کی برسی کے موقع پر شاہی خرچ سے سید خاندان کے گھرانوں کے لڑکیوں کی شادیاں کرائی۔

آپؒ کا قائم کردہ مدرسہ جامعہ نظامیہ آج بھی مسلکی اختلافات سے دور اور اہل سنت والجماعت کا نمائندہ ادارہ ہے، مسلکی تشدد کے خلاف متوازن طرزِ اصلاح جامعہ نظامیہ کا طرہئ امتیازہے۔ شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقیؒ ایسی متفقہ علیہ شخصیت رہی، جن کو آج بھی تمام مسالک کی لوگ عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ مولانا الحمومی نے کہا کہ آج کا دور اپنے محنسوں کو فراموش کرنے کا دور بن گیا ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ آپؒ کی خدمات سے نئی نسل کو واقف کرایا جائے۔

مولانا احسن نے کہا کہ اسلام کا بنیادی ماخذ قرآن و حدیث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی پسندیدہ شخصیات کے ذریعہ عالم اسلام کو ترقی اور عروج عطا فرمایا۔ اسلام کا ساڑھے چودہ سو سالہ سفر میں قرآن و حدیث کی تعلیمات کے ساتھ متعدد شخصیات کی خدمات نمایاں رہی ہیں۔ ان شخصیتوں نے قرآن و حدیث کی تشریع کی، اس کو عوام میں عملی طور پر نافذ کیا۔ عام طور پر سماج میں شخصیتوں کے سلسلے میں افراط و تفریظ کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ کوئی شخصیت پرستی میں مبتلا ہے تو کوئی شخصیات کو ہی انکار کردیتا ہے۔ جب کہ یہ دونوں رویہ بالکل غلط ہے۔

راہِ اعتدال یہ ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں شخصیات کو پرکھا جائے، جو اس کے آئینہ دار ہیں؛ ان کو فالو کیا جائے۔ اللہ تعالی کی سنت ہے کہ اللہ نے پہلے دنیا میں پیغمبروں کو مبعوث کیا اور بعد میں کتابیں نازل کیں۔ پیغمبروں نے اپنے آپ کو دنیا کے سامنے ’رول ماڈل‘ کے طور پر ثابت کیا۔ اسی لیے شخصیات ہیں تو کتابیں ہیں؛ کتابیں ہیں تو شخصیات ہیں۔ دونوں کا لازم و ملزم والا تعلق ہے۔

دین سمجھنے کے لیے صرف قرآن کافی نہیں بلکہ حاملِ قرآن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی جاننا ہوگا۔ سورۃ فاتحہ میں سکھایا گیا کہ ’اے ہمارے رب ہمیں سیدھا راستہ دکھا، ان لوگوں کا راستہ دکھا، جن پر آپ نے انعام و اکرام کیا‘۔ کوئی بھی شخصیت بڑی محنتوں کے بعد وجود میں آتی ہے۔ اگر شخصیات کا انکار کیا جائے تو ہمارے معاشرہ میں کوئی ’کامیاب شخصیت‘ وجود ہی میں نہیں آئے گی۔