چند روز پہلے لکھنو کے ایک ہندو سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کی ویڈیو دیکھی جس میں وہ یہ کہہ رہا تھا کہ“مسلمان اس لیے سخت ہوتے ہیں کیوں کہ اسلام اصول پسند ہے”۔ یہ ایک عام انسان کا درست مشاہدہ ہے اور یہی اسلام کا امتیاز ہے کہ اس نے اپنے ماننے والوں کو طریقہ زندگی دیا ہے اور اسی طریقے پر چلنے کو عبادت قرار دیا ہے۔
اس طریقہ زندگی پر مسلمان بلا شک وشبہ اس وقت تک عمل کرتے رہے جب تک غیر مسلموں سے بحیثیت حاکم سابقہ نہیں پڑا، لیکن جب وہ حاکم اور بالادست تسلیم کرلیے گئے اور مسلمان محکوم وتابع، تو اس طریقہ زندگی کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔ کچھ لوگوں نے تو“ہمت”دکھائی اور لبرل اسلام کی آڑ میں اس معاشرت کا انکار ہی کردیا، جب کہ کچھ لوگوں نے اس معاشرت کو“مصلحت”کے خلاف جان کر کمزور تاویلات کا سہارا لیا۔ اسی عمل کو اردو میں شناخت کا بحران اور انگریزی میں آئڈینٹٹی کرائسس کہا جاتا ہے۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ بندوں کی شناخت یہ ہے کہ. یعنی اندر سے نرم ہوں گے اور باہر سے سخت، لیکن اس سختی سے مراد سخت مزاجی نہیں ہے بلکہ اصولوں کی سختی ہے اور اس کا قرینہ یہ ہے آیت میں ارتداد کا تذکرہ ہے:، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسلمان اگر غیر مسلموں کے ساتھ اپنے تعامل میں اپنے ہی اصول چھوڑ دے اور ان کے طور طریقے اختیار کرلے تو یہ بالاخر ارتداد کا سبب بن جاتا ہے۔
غیر مسلم ہمارے برادران وطن ہیں، وہ ہمارے مذہبی بھائی نہیں ہیں۔ ہم ان کی عام خوشیوں اور غموں میں شریک ہوں، بہت اچھی بات ہے، لیکن ان کی مذہبی خوشیوں اور غموں میں شرکت اپنے اصولوں سے انحراف ہے۔ پھر کرسمس اور دیوالی ہی کیوں، دنیا میں ایک تہوار ایسا بھی ہے جو ایک“مسلم”فرقے کے ذریعے منایا جاتا ہے اور جس کی بنیاد غم ہے۔ آپ بھی اس فرقے کے ساتھ مل کر شہادت حسین پر ماتم کیجیے، یا کم از کم اظہار افسوس ہی کردیجیے۔ یا رواداری کا تعلق صرف ہندوؤں یا عیسائیوں سے ہی ہے؟
ہمارا نفس ہمیں اسلامی معاشرت کو فرسودہ ثابت کرنے کے لیے طرح طرح کی تاویلات سکھاتا ہے، مثلا کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ غیر مسلموں کے ساتھ مذہبی تہوار منانے اور خوشیاں بانٹنے پر وہ ہمارے قریب آئیں گے اور یہ طریقہ دعوت دین کے لیے موثر ہوگا۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت دین کا طریقہ ان کے یہاں جاکر اپنی بات رکھنا بتایا ہے نہ کہ ان کے یہاں جاکر ان کی بات سن لینا اور دعوت کا وہی طریقہ موثر ہوگا جو چودہ سو سال پہلے مؤثر تھا۔
کچھ لوگوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ اسلامی شناخت کی اہمیت اتنی زیادہ کیوں ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ آپ چلتے پھرتے داعی اسی وقت بن سکتے ہیں جب آپ ممتاز نظر آئیں۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ نائن الیون کے بعد مغرب میں اسلام اتنی تیزی سے کیوں پھیلا؟ صرف اس لیے کہ میڈیا نے مسلمانوں کو عام دنیا سے“مختلف”دکھایا، میڈیا کا یہ منفی رویہ ہی مسلمانوں کے لیے مثبت بن گیا۔ آج بھی مغربی ممالک میں، غیر متعصب لوگ جب مسلمانوں کو دیکھتے ہیں تو خود ان تک پہنچنے اور ان سے بات چیت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہی وقت اپنی بات رکھنے کے لیے سب سے موزوں ہوتا ہے۔
شناخت انسانی تاریخ کا ایک اہم ترین جزو ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ صرف اسلامی مسئلہ ہے بلکہ غیر مسلموں کے یہاں بھی اس کو اہمیت دی جاتی ہے اور کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ امریکہ جیسے ملک میں جہاں مادیت کے سامنے ہر چیز اکھڑ جاتی ہو، ایک قوم ایسی بھی آباد ہے جس کو“آمِش”کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ شہروں سے دور رہتے ہیں اور مذہبی بنیادوں پر، سائنسی ترقیات کو حرام سمجھتے ہیں۔
یہ آج بھی قریبی سفر کے لیے گھوڑا گاڑی استعمال کرتے ہیں، ان کے یہاں فون اور بجلی وغیرہ نہیں ہوتی ہے۔ مردوں اور عورتوں کا ایک خاص لباس ہے، خواتین ہمیشہ سر پر اسکارف باندھتی ہیں، مرد داڑھی رکھتے ہیں، مونچھیں کترتے ہیں۔ یہ عیسائی فرقہ اپنی امتیازی شناخت کی بنیاد پر ہی جانا جاتا ہے، ورنہ عیسائیوں میں لا تعداد فرقے ہیں، جن میں عقائد کے اعتبار سے بڑا فرق ہے، لیکن یکساں معاشرت ہونے کی وجہ سے کوئی امتیاز باقی نہیں ہے۔ آمش قوم کی الگ معاشرت پر کوئی اعتراض نہیں کرتا، ان کے معاملات میں کوئی دخل نہیں دیتا اور وہ فخر سے اپنی شناخت کا تحفظ کرتے ہیں۔
بر صغیر کے مسلمان بہت جلد احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں، وہ غیر مسلموں کو دعوت دینے میں دیگر علاقے کے مسلمانوں کے مقابلے میں غالبا سب سے پیچھے ہیں، لیکن پھر بھی یہ کہتے ہیں کہ ان کے مذہبی تہواروں میں شرکت اور ان کو مبارکباد دینے سے دعوت دین میں آسانی ہوگی۔ آپ کو اپنی الگ شناخت کا تحفظ کرنا ہوگا۔ آپ کے بڑوں نے تو پیتل کے برتن اس لیے استعمال نہیں کیے کہ ان کا رواج غیر مسلموں میں تھا، اس لیے مسلمانوں میں تانبے کے برتنوں کا رواج پڑا حالانکہ یہ کوئی مذہبی مسئلہ نہیں تھا۔
آپ نمک بن کر پانی میں جائیں گے تو گھل جائیں گے، پانی کو نمکین بنانا کافی نہیں ہے بلکہ اس کو اپنے اندر جذب کرلینا مطلوب ہے۔ اسی لیے بہت سی احادیث میں غیر مسلموں کے تہواروں میں شرکت، ان کو سلام کرنے، ان جیسے کپڑے پہننے اور ان جیسا حلیہ بنانے کی ممانعت کی گئی ہے، تاکہ ایک مسلمان کی شناخت باقی رہے اور وہ آئڈینٹٹی کرائسس کا شکار نہ ہو۔