مولانا عمر گوتم کو گزشتہ سال 20 جون کو اتر پردیش کے انسداد دہشت گردی اسکواڈ کے ہاتھوں گرفتار کیا گیا تھا۔ اے ٹی ایس نے اسی معاملے میں مولانا عمر گوتم کے بیٹے عبداللہ عمر کو بھی گرفتار کیا تھا عمر گوتم کو جیل میں 545 دن ہوگئے ہیں۔
الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے مبینہ طور پر غیرقانونی طور سے تبدیلی مذہب معاملہ میں مولانا عمر گوتم، ان کے بیٹے اور تین دیگر ملزمان کی ضمانت کی عرضی کو مسترد کردیا۔
اترپردیش پولیس کی خصوصی ٹاسک فورس (ایس ٹی ایف) نے گزشتہ سال گوتم کو ریاست بھر میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کا ریکیٹ چلانے کے الزام میں گرفتار کیا تھا جن لوگوں کی ضمانت مسترد کی گئی ان میں مولانا عمر گوتم، ان کے فرزند عبداللہ عمر، راہول احمد عرف راہول بھولا، صلاح الدین اور محمد سلیم شامل ہیں۔
عمر گوتم کی جانب سے جاریہ سال کے آغاز پر ہی ہائی کورٹ سے رجوع ہوتے ہوئے ضمانت کی عرضی دائر کی گئی تھی تاہم گذشتہ مئی میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج، این آئی اے/ اے ٹی ایس کی عدالت سے ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کردی گئی تھی۔ ریاستی حکومت کی جانب سے پیش ہوتے ہوئے حکومت کے وکیل ایس این تلہری نے پانچوں ملزمان کی ضمانت کی مخالفت کی۔
مولانا عمر گوتم اور دیگر کو ضمانت دینے سے انکار کرتے ہوئے جسٹس رمیش سنہا اور جسٹس سروج یادو کی ڈویژن بنچ نے بتایا کہ ’اپیل کنندہ کے عمل اور طرز عمل کو ذہن میں رکھتے ہوئے، یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ بے قصور ہیں، دوسری جانب انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) کی جانب سے تحقیقات کے دوران جمع کردہ شواہد اور جمع کرائی گئی چارج شیٹ اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ سماج دشمن عناصر کی مدد سے ملک دشمن سرگرمیاں انجام دے رہے تھے‘۔
عدالت نے کہاکہ ’عمر گوتم نے اپنے ذاتی کھاتوں میں بھی بیرونی ممالک سمیت مختلف ذرائع سے بھاری رقم وصول کی۔ عدالت نے مشاہدہ کیا کہ استدلال کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اگر اپیل کنندہ کو ضمانت پر رہا کیا جاتا ہے، تو اس بات کا پورا امکان ہے کہ وہ دوبارہ ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہوسکتے ہیں جو ملک کے قومی یکجہتی کے لیے نقصان دہ ہے، اس لیے ہمیں اپیل کنندہ کو ضمانت دینے کے لیے کوئی خاص بنیاد نظر نہیں آرہی ہے‘۔
واضح رہے کہ اترپردیش میں مشہور عالم دین مولانا کلیم الدین صدیقی اور دیگر افراد کو تبدیلی مذہب قانون کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ تاہم ان لوگوں کی بھی اب تک رہائی عمل میں نہیں آئی۔