بے لگام تبصرے ہماری زندگی کا حصہ بن گیے ہیں، جو منہ میں آیا بَک دیا اور جو چاہا کہہ دیا، پھر اس بکواس اور کہنے کے لیے جگہ کی بھی قید نہیں ہے، چائے کی دوکان، کھانے کی میز ، دوستوں کی مجلس میں اس قدر تبصرے ہونے لگے ہیں کہ وہ دیہات کی چوپال کا منظر پیش کرتے ہیں، جہاں دیہات میں چند افراد حقہ کے گُر گرے کے ساتھ پورے گاؤں کی خبر لیا کرتے تھے، موبائل، نیٹ اور ٹی وی کے آجانے سے دیہات کا چوپال تو دم توڑ رہا ہے، لیکن بے لگام تبصرے اس روایت کو تسلسل عطا کرنے میں آج بھی مشغول ہیں۔
ابھی حال ہی میں گجرات پولیس نے ترنمول کانگریس کے قومی ترجمان ساکیت گوکھلے کو جے پور ہوائی اڈہ سے گرفتار کرکے احمد آباد لے گئی کیوں کہ انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی پر موربی پل حادثہ کے حوالہ سے غیر ضروری تبصرہ کیا تھا، اور ٹویٹ کیا تھا کہ وزیر اعظم کے موربی دورے پر تیس کروڑ روپے خرچ کیے گیے، اس میں سے ساڑھے پانچ کروڑ روپے ان کے استقبال، جائے معائنہ کے انتظام وانصرام اور فوٹو گرافی پر خرچ ہوئے جب کہ مرنے والے ایک سو پینتیس متاثرین کو چار لاکھ روپے فی کس کے حساب سے صرف پانچ کروڑ روپے ملے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس سے وزیر اعظم کی شبیہ خراب ہوئی۔
اسی طرح کی ایک خبر فلم ساز اگنی ہوتری کے بارے میں بھی آئی، جنہوں نے اکتوبر ۲۰۱۸ء میں دہلی ہائی کورٹ کے ایک فیصلہ کی مذمت کرتے ہوئے جسٹس ایس مُرلی دھر کے خلاف ٹوئٹ کر دیا تھا، اگنی ہوتری نے دہلی ہائی کورٹ سے معافی مانگ کر ہتک عدالت کے مقدمہ سے اپنے کو بری کرالیا، لیکن ساکیت گوکھلے اب بھی پولیس کی تحویل میں ہیں، ممتا بنرجی نے اسے سیاسی کارروائی قرار دیا ہے اور اس کی سخت مذمت کی ہے اور اسے لوگوں کی آزادی چھیننے سے تعبیر کیا ہے۔
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ غلط کاموں پر تنقید اور تبصرے نہ کیے جائیں، ضرور کی جائے لیکن اس کا دائرہ اتنا نہ پھیلا دیا جائے کہ اس کا سِرا جھوٹ، الزام تراشی، شخصیت کی کردار کُشی سے مل جائے، بد قسمتی سے ان دنوںیہی ہو رہا ہے ، پگڑیاں اچھالنے میں لوگوں کی دلچسپی بڑھتی ہی جا رہی ہے، اس سے سماجی تانے بانے کو سخت نقصان پہونچ رہا ہے اور یہ خطرناک صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔
اسی وجہ سے صرف یو ٹیوب نے جولائی سے ستمبر کے درمیان ہندوستانیوں کے سترہ لاکھ ویڈیو اپنے پلیٹ فارم سے ہٹادیا ہے، یقینا شخصی آزادی دستور کے مطابق ہمارا حق ہے، لیکن سستی شہرت کے حصول کے لیے دوسروں کو ذلیل ورسوا کرنے کی اجازت کسی سطح پر نہیں دی جا سکتی، حکومت کو ایک ایسا طریقۂ کار وضع کرنے کی ضرورت ہے جو اظہار رائے کی آزادی کے ساتھ تنقید وتبصرہ کے حدود وقیود متعین کرے؛ تاکہ بے لگام تبصروں پر لگام لگائی جا سکے۔