Crack Competitive exams for government jobs
تلنگانہ حالات حاضرہ

سرکاری نوکریوں کیلئے مسابقتی امتحانات میں حصہ لیجئے، حلال روزی کمانا بھی فرض: مولانا ڈاکٹر احسن بن محمد الحمومی

حیدرآباد: (پریس نوٹ) انسان کے پاس اتنے پیسے ہونا ضروری ہے جس سے وہ اپنی اور اپنے ذمہ آنے والے لوگوں کی ضروریات کو مکمل کرسکے۔ پیٹ کو حلال روزی ملے اور حلال رزق کی وجہ سے پیٹھ ہمت و طاقت سے ٹھہر سکے۔ آج مسلمانوں کا بڑا مسئلہ ’معاشی عدم استحکام‘ کا مسئلہ ہے۔ معاشی طور پر مسلمان کمزور ہوتے جارہے ہیں۔ آج ہر گھر میں بے روزگار مل رہے ہیں۔ مسلم گھرانوں میں عمومی طور پر ایک کمانا والا اور باقی سب بیٹھ کر کھانے والے ہوتے ہیں۔ بچوں کو کھلانے کی ذمہ داری صرف بلوغت تک ہے۔ بچہ بالغ ہوجائے تو بچہ کو خود کما کر کھانا چاہیے۔ اس کے بعد اسے بیٹھا کر کھلانے کی ذمہ داری ماں باپ پر نہیں ہے۔ اسے فن سکھایا جائے۔ ’بچہ تو ابھی پڑھ رہا ہے‘ کہہ کر بچوں کو نہ کوئی کاروبار کرنے کی اجازت ہوتی ہے اور نہ ہی اسے کسی روزگار پر لگایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ بچہ آلسی ہوجاتا ہے۔ محنت و مشقت کی عادت ختم ہوجاتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار شاہی مسجد باغ عام میں مولانا ڈاکٹر احسن بن محمد الحمومی نے خطبہ جمعہ کے دوارن کیا ہے۔

مولانا احسن نے کہا کہ محنت نہ کرنے کی وجہ سے بچے پڑھائی کے نام پر وہ آواری گردی اور اوقات ضائع کرنے کے عادی ہوجاتے ہیں۔ اسی لیے رات رات تک نوجوان جاگ رہے ہیں۔ بے روزگاری عیب ہے۔ بے روزگاری کبیرہ گناہ سے کر کفر تک کروادیتی ہے۔ بالغ بچوں کا فرض ہے کہ وہ خود ہی پڑھائی بھی کرے اور کمائی بھی کرے۔ رسول اکرمؐ کی صرف عمر صرف آٹھ سال تھی۔ دادا کے انتقال کے بعد چاچا کی کفالت میں پرورش ہوئی، حضور اکرمؐ غیرت مند تھے۔ اسی عمر میں حضورؐ پڑوس کی بکریاں چَرانے جاتے تھے۔ جو پیسے شام کو ملتے وہ اپنے چچا کو دے دیتے۔ تاکہ وہ بھی معاشی طور پر سہارا بن سکے۔ رزق تو وہ ہی ہے، جو ہمیں اللہ کھلاتے ہیں لیکن ہمیں حلال رزق کے ذرائع اختیار کرنا پڑتا ہے۔

مولانا احسن نے کہا کہ سرکاری ملازمت کیلئے تلنگانہ حکومت کی جانب سے گروپ 4 کی دس ہزار پوسٹوں کا نوٹیفیکیشن جاری ہوچکا ہے۔ جس کے لیے اہلیت گریجویشن ہے۔ فارم اپلائی کرنے کی حتمی تاریخ 12 جنوری ہے۔ ان مسابقتی امتحانات میں اردو میں امتحان لکھنے کی بھی سہولت ہے۔ اس میں کسی امتیازی سلوک کا بھی دور دور تک شائبہ نہیں۔ میرٹ کی بنیاد پر نتائج جاری ہوں گے۔ گروپ 2 کے تحت 800 پوسٹوں کے ضمن میں جلد ہی نوٹیفیکیشن جاری ہوگا۔ اس ضمن میں اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ قوم کے سرمایہ دار، تعلیم یافتہ طبقہ اور دانشووں کو آگے آنے کی ضرورت ہے۔

اس ضمن میں پہلی مدد یہ ہوگی کہ محلہ واری سطح پر ایسے ماہرین دستیاب ہوں جو 12 جنوری تک فارم اپلائی کرسکے۔ 12 جنوری کے بعد سنجیدگی سے کوچنگ سنٹرس قائم کیے جائیں۔ جامعہ نظامیہ سے فضیلت کرنے والے طلبہ کی سند کو حکومت تلنگانہ کی جانب سے گریجویشن کی مماثل تسلیم کیا گیا ہے۔ ان مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کیلئے مواد اردو میں بھی دستیاب ہے۔مسابقتی امتحان میں کامیاب ہونے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ ایسا موقع بار بار نہیں آتا۔ یہ ریاست اور ملک کی خدمت کا بہترین کا موقع ہے۔ اس سے ہماری معیشت بھی مضبوط بھی ہوگی۔ ایک قوت دار قوم وہی ہوتی ہے؛ جس کی معیشت مضبوط ہوتی ہے۔

مولانا احسن نے کہا کہ حلال رزق کے راستے انسان کو خود ہی تلاش کرنا پڑتا ہے۔ خود حضور اکرمؐ نے فرمایا ’حلال رزق کے کوشش فرض نمازوں کے بعد سب سے بڑا فرض ہے‘۔ اگر کوئی نوجوان، جوان ہونے کے بعد پیسہ نہ کمائے تو وہ فرض کو چھوڑ رہا ہے۔ نماز کو چھوڑنے والا گناہ گار تو اسی طرح حلال روزی نہ کمانے والا بھی گناہ گار ہے۔ مومن کی شان اور پہچان ہے کہ وہ کسی کے سامنے اپنا ہاتھ نہیں پھیلاتا ہے۔
حضور اکرمؐ نے فرمایا کہ اونچا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ حضورؐ نے محنتی صحابیؓ کا ہاتھ چوما تھا۔ حلال روزی کمانا عبادت ہے۔ بے روزگاری کے عام ہونے سے گھر کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں ہوپارہی ہے۔ بے روزگاری کی وجہ سے قرض لینے اور دینے کا رواج بھی بڑھ رہا ہے۔ تلنگانہ حکومت کی جانب سے روزگار کی فراہمی کے بارے میں اعلانات بھی کیے جارہے ہیں لیکن اب بھی نوجوانوں میں شعور بیدار نہیں ہے۔ بڑی بڑی تنظیمیں دیگر کام کرنے کے باوجود بچوں کو مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کیلئے سنجیدگی سے کوشش نہیں کریں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’انسان کو وہی ملے گا، جس کیلئے وہ کوشش کرے گا۔ اس کی کوششوں کے نتائج سامنے آئیں گے‘۔

مولانا احسن نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انسانوں کو بھیج کر طریقہ زندگی بھی بتلایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو جو زندگی مطلوب ہے، وہ اللہ والا بن کر زندگی گزارنے سے حاصل ہوتی ہے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اللہ والا بننے کیلئے دنیا کو ترک کرنا پڑتا ہے۔ بیوی بچوں سے کنارہ کشی اختیار کرنا پڑتا ہے۔ مسائل زندگی سے دور کا بھی ’اللہ والے‘ کو واسطہ نہیں ہوتا۔ جب کہ یہ غلط فہمی ہے۔ اللہ والا وہ نہیں ہے؛ جو کاروبار کو چھوڑ دے۔ جب کہ اللہ والا وہ ہے کہ وہ زندگی کو بہتر طور پر گزارے۔ تجارت و ملازمت کرے۔ اپنے رشتہ داروں کا خیال رکھے۔ یہ سب کام اللہ کی مرضی کے مطابق کرے؛ اسے ’اللہ والا‘ کہتے ہیں۔
سابق اقوام و ملل کے یہاں یہ تصور تھا کہ خدا کا برگزیدہ بننا ہے تو دنیا کو چھوڑ دیں، شادی نہ کریں۔ سنیاسی کی زندگی گزریں۔ اسلام نے اس نظریہ کی نفی کی۔ اسلام میں رہبانیت نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’اللہ کا یہاں دین اسلام ہے۔ اے حبیبؐ جو اصول آپ نے بنائیں ہیں، اس پر میں راضی ہوں۔ یہی دین اور طریقہ زندگی قابل قبول ہے‘۔ اسلام تو وہ دین ہے، جو بیوی بچوں کے ساتھ خوشگوار زندگی گزارنا سکھاتا ہے۔ تجازت و ملازمت اور خرید و فروخت کے اصول بتاتا ہے۔ دین تو پوری زندگی پر محیط ہے۔

مولانا احسن الحمومی نے کہا کہ عام طور پر اللہ والے کہتے ہی یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ زندگی سے فرار کا نام ہے۔ اللہ والا بننے کیلئے تمام چیزوں کو چھوڑ دینا پڑتا ہے۔ جب کہ ایسا نہیں ہے۔ اس کیلئے تو سب کچھ کرتے ہوئے نیت کو درست کرنا ضروری ہے۔ ہمیشہ یہ استحضار ہو کہ زندگی کے ہر لمحہ میں مجھے اللہ دیکھ رہے ہیں۔ ایک مسلمان تمام معاملات کو بہتر طور پر انجام دیتا ہے۔

اسلام تو ہر حلال، مقوی اور طاقت سے بھرپور غذا کھانے کی اجازت دیتا ہے۔ رسول اکرمؐ کا امتی زندگی کو بہتر اور پرفیکٹ انداز میں گزار کر آخرت کی زندگی کو بھی خوشگوار بناتا ہے۔ ایک مسلمان دنیا اور آخرت کو بیالنس رکھتا ہے۔ جب کہ ہر وہ چیز جو اللہ سے غافل کردے، وہ دنیا ہے۔ دولت کمانا، پیسے والا بننا، اچھے مکان میں رہنا اور اچھے دوستوں کو رکھنا اسلام میں عیب نہیں ہے۔ بلکہ ان سب کی چکر میں پڑ کر اللہ کو بھلادینا عیب ہے۔

اسلام تو یہ کہتا ہے کہ دنیا کو اچھی کریں؛ تاکہ آخرت اچھی بن جائے۔ جس کی دنیا اچھی نہیں ہے، اس کی آخرت اچھی ہونے کی کوئی گیارنٹی نہیں ہے۔ اسی لیے دعا سکھائی گئی کہ اے ہمارے رب ہماری دنیا کو بہتر بنا اور آخرت کو سنوار دے۔دنیا کو پہلے بیان کیا ہے۔ جس کے گھر میں سکون، کھانے کیلئے اچھی غذا، جیب میں پیسے، اچھی صحت اور بہتر لباس ہو تو وہ آرام سے اللہ کی عبادت بھی کرسکتا ہے۔