Nizam-era Madrasa-I-Aliya
تلنگانہ

حیدرآباد کا سب سے قدیم مدرسہ عالیہ زبوں حالی کا شکار

ریاست تلنگانہ کے مایہ ناز تعلیمی ادارہ عالیہ ہائی اسکول و جونیر کالج نے اپنے قیام کے 150 سال مکمل کرلئے ہیں۔ حیدرآباد کا 150 سالہ قدیم اسکول مدرسہ عالیہ چھٹویں نظام میر محبوب علی خان بہادر نے 1812ء میں نامپلی میں تعمیر کروایا تھا- سابق ریاست کے حکمران نواب میر عثمان علی خان، بے شمار شہزادگان، نواب مکرم جاہ بہادر جیسی شخصیتوں کو یہاں تعلیم حاصل کرنے کا اعزاز حاصل ہے لیکن آج یہ اس تعلیمی ادارہ کی عمارت اپنی زبوں حالی پر شکوہ کناں ہے۔

مدرسہ عالیہ برٹش اور دکنی طرز پر تعمیر کیا گیا ہے مدرسہ عالیہ کی قدیم عمارت خستہ ہوچکی ہیں عمارت کے کچھ حصہ ٹوٹ چکے ہیں اور چھت منہدم ہوچکی ہے۔

عمارت پر مختلف پودے بھی اُگ چکے ہیں اور جگہ جگہ سے دیواروں میں درار پڑ چکی ہیں- حیدرآباد کی مشہور و معروف تاریخ داں و انٹک تنظیم کی صدر انو رادھا ریڈی نے کہا کہ مدرسہ عالیہ حیدرآباد کا قدیم اسکول ہیں اس کے باوجود اس کی جانب کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔

یہ عمارت اتنی خستہ ہوچکی ہے کہ اس میں داخلہ بھی بند کردیا گیا ہے- حکومت تلنگانہ نے حیدرآباد کے تاریخی عمارتوں کے تحفظ اور تعمیری کاموں کا وعدہ کیا تھا لیکن ابھی تک کئی تاریخی عمارتوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ انورادھا ریڈی نے حکومت تلنگانہ سے اپیل کی کہ وہ مدرسہ عالیہ کی قدیم بلڈنگ کی مرمت اور تزئین و آرائش کا کام شروع کریں اور مدرسہ عالیہ تحفظ کریں۔

واضح رہے کہ عالیہ ہائی اسکول میں انٹرمیڈیٹ تک تعلیم ہوتی ہے۔ ماضی میں یہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ حیدرآبادی تہذیب کی تربیت بھی دی جاتی تھی۔ یہ ادارہ پہلے مدرسہ عالیہ کے نام سے مشہور تھا۔ چھٹے نظام نواب میر محبوب علی خان کے دور میں 1872 میں اس وقت کے وزیراعظم سالارجنگ اول نے شاہی خاندان کے بچوں کی تعلیم کیلئے مدرسہ قائم کیا تھا۔