قوموں کے عروج وزوال میں تعلیم وتربیت کی جو اہمیت اور حصہ رہا ہے، اس کے لیے اتنی بات کا سمجھ لینا کافی ہے کہ اسی علم کی بنیاد پر فرشتوں سے حضرت آدمؑ کو سجدہ کروایا گیا، اور حضرت آدم کو تمام انسانوں کا باپ اور پہلا نبی بنا کر انہیں تربیت کے کاموں پر مامور کیا گیا، اللہ رب العزت نے بیان کیا کہ علم والے اور بے علم برابر نہیں ہیں، جس طرح تاریکی اور روشنی برابر نہیں ہوا کرتے، قرآن کریم میں عروج کا جو نسخہ بنی آدم کے لیے اللہ رب العزت نے طے کیا، اس میں ایمان اور علم کو رفع درجات کا ذریعہ بتایا۔
سورة عصر میں انسان کو گھاٹے سے نکالنے والی چیز ایمان کو قرار دیا جو اللہ رب العزت اور رسالت پر اس کے تمام اوصاف اور خصوصی معتقدات پر ایقان واعتماد کا نام ہے، یہ ایقان واعتماد بغیر علم کے ممکن نہیں ، ایمان کے ساتھ عمل صالح کا مزاج تربیت سے بنا کر تا ہے ، حق پر ثبات اور صبر پر استقامت ہی اس تربیت کا حاصل ہے، جو انبیاءکرام لے کر کے آئے، اللہ رب العزت نے ایمان اور عمل صالح پر جمنے والے بندے کے لیے خلافت ارضی کا اعلان کیا اور فرمایا کہ ہم انہیں ضرور بالضرور زمین میں خلیفہ بنائیں گے، جیسا پہلی قوموں کو ہم نے خلافت دی تھی، اللہ ان کے لیے جس دین پر راضی رہا اس پر استقامت عطا فرمائی اور خوف ودہشت کے ماحول کو پُر امن بنا دیا۔
قومیں جب تک ایمان ، عمل صالح کے ساتھ زندگی گذارتی رہیں، انہیں عروج رہا اور جب ان کے اندر ایمانی ، اعتقادی ، علمی اور اخلاقی زوال نے آلیا تو ان کا زوال شروع ہو گیا، دنیا کی تاریخ یہی بتاتی ہے اور یہ سب سے بڑی سچائی ہے ، تمام انبیاءکی حیات وخدمات کا مطالعہ کریں تو اندازہ ہوگا کہ ہر نبی کو اس دور میں جیسا علمی اختصاص تھا، اسی اعتبار سے معجزے دیے گیے ، تاکہ ان کی علمی برتری ان کی امت پر مسلم رہے، امت مسلمہ کے لیے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بنا کر مبعوث کیا اور علم وانکشافات کے دروازے اس قدر کھولے گیے کہ آپ معلم کا ئنات بن گیے اور اعلان فرمایا کہ میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں، اس کے ساتھ تربیت کا بھی ذکر کیا کہ وہ معلم اس لیے بنا کر بھیجے گیے کہ وہ اعلیٰ اخلاقی اقدار کی تکمیل کریں، اس سے معلوم ہوا کہ تعلیم کا مقصد اچھے کردار کا انسان بنانا ہے ، قرآن کریم میں تعلیم وتزکیہ کا ذکر ساتھ ساتھ کیا گیا اور اسے کار نبوت قرار دیا گیا۔
یہ بات بھی غور طلب ہے کہ آخر قوموں کے عروج وزوال میں ان دونوں چیزوں کی اتنی اہمیت کیوں ہے ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ علم خدا شناشی اور خود شناشی کا ذریعہ ہے ، خدا شناشی انسانوں اور حکمرانوں کو ظلم وطغیان سے باز رکھتا ہے ، اس کے ذہن ودماغ میں اس کی وجہ سے فکر آخرت کا غلبہ ہوتا ہے اور یہ فکر اسے غلط راہوں پر جانے سے روکتی ہے ، وہ جانتا ، مانتا اور سمجھتا ہے کہ اس دنیا کے بعد بھی ایک دنیا ہے ، جہاں ہمیں تمام اعمال کا حساب دینا ہوگا، اس دن زبان درازی کام نہیں آئے گی ، بلکہ زبانوں پر تالے لگ جائیں گے اور اعضا وجوارح ہاتھ پاوءں بولنا شروع کر دیں گے ، یہ بولنا در اصل کراما کاتبین کے ذریعہ تیار کیے گیے اعمال نامے کے محضر پر شہادت ہوگی اور اس کے نتیجے میں اس شخص کی اخروی زندگی کا فیصلہ ہوگا، جس نے ذرہ برابرنیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بُرائی کی ہوگی اس کو اس کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس علم کی وجہ سے انسان کے اندر جو نظریات پر ورش پاتے ہیں، اس پر جمنا آسان ہوجاتا ہے، ایسا شخص ڈُھل مُل یقین نہیں ہوتا، مُذَب ±ذَبِی ±نَ بَی ±نَ ذالکَ لَا اِلی ھٰو ءلائِ وَلَا الیٰ ھٰو ¿لَائِ کی کیفیت اس کے اندر پیدا نہیں ہوتی، یہ تیقن کی یہ کیفیت اس سے ان اعمال کا صدور کراتی ہے جو اس کے نظریہ کے مطابق ہوتے ہیں، اور عملی طور پر اسے استحکام بخشتے ہیں۔ علم کی وجہ سے جو خود شناشی پیدا ہوتی ہے، اس کی وجہ سے وہ دوسروں کے سامنے جھکتا نہیں ہے، اپنے نظریات سے سمجھوتا نہیں کرتا، اور علی وجہ البصیرت ان نظریات کو زمین پر اتارنے کے لیے جد وجہد کرتا ہے ، جس سے قوموں کے عروج کی داستان رقم ہوتی چلی جاتی ہے۔
اس کے بر عکس جب علم کی کمی ہوتی ہے تو پہلے اخلاقی زوال شروع ہوتا ہے، اس زوال کی وجہ سے دوسرے افکار ونظریات اس کو اپنے حصار میں لے لیتے ہیں، ایسے میں پہلے نظریات سے یقین اٹھ جاتا ہے اور جب جڑ میں کمزوری آجاتی ہے تو اس کے زوال کا آغاز ہوتا ہے ، اس کی مثال اس کٹی پتنگ کی طرح ہوجاتی ہے ، جس کو ہوا کا ایک جھونکا اڑا کر کہیں سے کہیں لے جاتا ہے اور پتنگ کسی درخت کی شاخ سے الجھ کر اپنا وجود کھو بیٹھتی ہے ، خود شناشی کی کیفیت کا اختتام قوموں کی اکثریت سے ہوجائے تو زوال شروع ہوجاتا ہے۔
اس مسئلہ کو اس طرح سمجھنا چاہیے کہ گاڑی جب تک مسطح سڑک پر ہو،اس کو بریک لگا کر روکا جا سکتا ہے، لیکن جب گاڑی ڈھلان پر چل پڑے تو بریک بھی کام نہیں کرتا، تباہی اس کا مقدر بن جاتی ہے، مثال کے طور پر آپ ہندوستان میں بودھوں کے عروج وزوال کی داستان پڑھیں ان کے یہاں اللہ پر ایمان ویقین کا واضح اعلان نہیں ہے ، وہ عقل کی آغوش میں چلے جانے کی بات کرتے ہیں، گویا گیان کی منزل ان کے یہاں عقل کی آغوش ہے، یہ عقل ، عقل کل یعنی اللہ بھی ہو سکتا ہے ، اور عقلیت بھی ، جس کے ماننے والے اسلام میں بھی کچھ لوگ ہیں، جینیوں کے یہاں جانداروں کی ہلاکت سے خود کو بچائے رکھنے کی بات کہی گئی ہے ، لیکن خدا کے وجود اور اس کے متعلقات پر توجہ نہیں دی گئی اس کا مطلب ہے کہ صحیح علم نے ان کے دل ودماغ کو منور نہیں کیا، اس لیے وہ عروج کی طرف بڑھ نہیں پائے ۔
خود شناشی کے لوازمات میں سے خودی اور خود داری بھی ہے ، خودی معرفت نفس کا دوسرا نام ہے اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، من عرف نفسہ فقد عرف ربہ جس نے خود کو پہچان لیا اس نے رب کو پہچان لیا، گویا معرفت نفس ، معرفت رب تک پہونچنے کا زینہ ہے ، یہ علم جس قدر وسیع ہوگا کائنات کے اسرار ورموز بندے پر کھلنے لگیں گے، اور جس قدر اسرار وموز سے واقفیت ہوگی بندہ سماجی اور ذہنی طور پر اسی قدر ترقی کرے گا، اسی لیے اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا کہ علم والے ہی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں، یہ ڈر معرفت رب کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے، جو بندوں کے اعمال افکار اور اقدار کو صحیح سمت عطا کرنے کا کام کرتاہے، اس صحیح سمت کی وجہ سے وہ اللہ کے قریب ہوجاتا ہے، اور اللہ کی نصرت ومدد کا حق دار ہوجاتا ہے ، جس کی وجہ سے وہ عروج کے منازل طے کرتا چلا جاتا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ قرآن کریم کے نزول کے وقت سے علم وانکشافات کے دروازے کھلے، اس کے قبل کا زمانہ آج بھی دور جاہلیت کہلاتا ہے، شعراءوادباءکی زمانہ کے اعتبار سے جو تقسیم کی گئی ،اس میں نزول قرآن کے قبل کی شاعری کو دور جاہلی کی شاعری اور ادب جاہلی کہا جاتا ہے، اللہ رب العزت نے قرآن کریم کے ذریعہ لوگوں کی ایمانی، تہذیبی، تمدنی، عمرانی، سماجی اور معاشرتی رہنمائی فرمائی، اور اسے کتاب ہدایت کے طور پر نازل کیا، یہ ہدایت ہر میدان میں قرآن کریم کے ذریعہ لوگوں کو ملی، اللہ رب العزت نے اسے تبیانا لکل شئی ہر چیز کو ظاہر کرنے والی کتاب کہا۔
اس اشارہ کی وجہ سے فلسفیوں نے اس سے اپنے مطلب کی چیز تلاش کی اور سائنس دانوں نے قرانی اشارات پر اپنی تحقیق کی بنیاد رکھی، انہوں نے اللہ رب العزت کے ارشاد میں تسخیر کائنات، تخلیق انسانی کے مراحل، زمین کی تہہ میں چھپے معدنیات زمین اور سورج کی رفتار، دن اور رات کے رموز سبھی کچھ دریافت کر لیا، مسلم سائنس دانوں کی تحقیقات اور ان کی دریافت کا اصل ماخذ قرآن کریم ہی تھا، انہوں نے قرآن کریم میں تدبر اور غور وفکر کیا اور اس غور وفکر کے نتیجے میں دنیا کو علمی اور فنی اعتبار سے مالا مال کر دیا، ان کی محنتوں سے ایجادات وانکشافات کے نئے دروازے کھلے۔
اس کے بعد علم کی تقسیم ہوتی چلی گئی، پہلے اسے نظری اور عملی میں تقسیم کیا گیا، پھر نظری کی تین اور تقسیم علم الٰہی ، علم حساب وریاضی اور علم طبعی میں ہو گئی، علم الٰہی کو علم اعلیٰ، علم ریاضی کو علم اوسط اور علم طبعی کو علم ادنی کے طور پر متعارف کرایا گیا، عملی کی بھی تین قسم اخلاق، تدبیر منزل اور سیاست مدن کے عنوان سے کی گئی، اس کے بعد اسے اسلامی غیر اسلامی کے عنوان سے تقسیم کیا گیا، علم الادیان اور علم الابدان کا تصور سماج میں عام ہوا، ابو نصر فارائی (م۹۲۳ھ) اور محمد یوسف خوارزمی(۷۸۳) نے علم کی جو درجہ بندی کی وہ مغربی دنیا میں بھی مقبول ہوئی۔
بر صغیر ہند وپاک میں علم دین ودنیا کی تقسیم نے اس قدر رواج پایا کہ علماء اور دانشور کا طبقہ الگ الگ وجود میں آگیا اور بقول مولانا مناظر احسن گیلانی ملت دو نیم ہو کر رہ گئی پہلے یہ تقسیم نظریاتی بنیاد پر ہوئی اور اب یہ انتظامی ضرورت بن گئی ہے، اس لیے اس فکری تقسیم کو ختم نہیں کیا جا سکتا، لیکن مدارس میں بعض عصری مضامین کی شمولیت اور عصری تعلیمی اداروں میں بنیادی دینی تعلیم کی شمولیت اور مسلمانوں کے ذریعہ قائم کردہ اداروں میں اسلامی ماحول فراہم کرکے بڑی حد تک اس خلیج کو پاٹا جا سکتا ہے۔