ریاست مہاراشٹر کے دار الحکومت ممبئی میں اجودھیا میں 6 دسمبر کو بابری مسجد کی شہادت کے بعد اور پھر جنوری 1993میں دوسرے دور کے خونریز فسادات کو تقریباً 30سال گزرچکے ہیں، جسٹس بی این سری کرشنا کی سربراہی میں قائم کئے گئے تحقیقاتی سری کرشنا کمیشن کی رپورٹ کو حکومت کے روبرو پیش کئے ہوئے بھی لگ بھگ 24 برس ہوچکے ہیں۔
فرقہ وارانہ فسادات کے سلسلے میں سری کرشنا کمیشن رپورٹ کا مقدمہ ایک عرصہ سےسپریم کورٹ میں التواء کا شکار رہا، لیکن وکیل شکیل احمد شیخ کی ایک عرضی پر سپریم کورٹ نے مہاراشٹر حکومت کو حکم دیا ہے کہ جو مظلومین اور متاثرین مالی امداد سے محروم رہ گئے اور جو فساد میں لاپتہ ہیں، ان کی تلاش کے ساتھ ہی پسماندگان کو معاوضہ دیا جائے، اطلاع کے مطابق ریاستی حکومت نے فی الحال اس ضمن میں کوئی اہم اقدام نہیں کیا ہے اور نہ اسے گمشدہ افراد کی تلاش میں کوئی دلچسپی نظر آتی ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بھی سرکاری سطح پر اور نہ ہی عوامی سطح پر کوئی سرگرمی مظلوموں کو انصاف دلانے کیلئے نظر آرہی ہے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ ان متاثرین کو انصاف دلانے کے لیے اس عدالتی کوشش کو آگے بڑھایا جائے، کیونکہ فی الحال اس معاملہ میں کسی کو کوئی دلچسپی نہیں ہے اور مظلومین انصاف کے لئے ترس گئے ہیں جن میں ایک بے قصور اور پولیس کی گولی کا شکار بنے رفیق ماپمر ہیں۔
رفیق ماپمر کے پاؤں میں گولی لگی تھی۔ رفیق ماپکر جو وڈالا کی ہلال یا ہری مسجد میں نمازیوں پر ہونے والی اندھادھند پولس فائرنگ میں زخمی ہوگئے تھے۔ اور عدالت کے چکر لگا لگا کر تھک چکے ہیں۔لیکن انہیں انصاف نہیں ملا ہے، انہوں نے رفیع احمد قدوائی مارگ پولیس اسٹیشن سے وابستہ انسپکٹر نکھل کاپسے کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا اور 2016 میں سیشن کورٹ نے مقدمہ خارج کردیا تھا۔حالانکہ کاپسے کا نام جانبداری اور ناانصافی کرنے بلکہ لوٹ مار میں شامل پولیس اہلکاروں کی فہرست میں شامل ہے مگر کاپسے کے خلاف کارروائی کے بجائے اسے ترقی دے دی گئی ہے۔
متاثرین میں سے ایک فاروق ماپکر کوکن نے اس تعلق سے کہاکہ انہیں سرکاری معاوضہ مل گیا ہے، لیکن بے قصوروں کو بلا اشتعال گولی کا نشانہ بنانے والے انسپکٹر کاپسے کو سزا نہیں ملی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ہی مختلف سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ کمیشن کی اس غیر جانبدارانہ اور منصفانہ رپورٹ کو نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کے ذریعے گمشدہ افراد کی تلاش اور معاوضہ کے لئے اقدام کئے جائیں۔
سری کرشنا کمیشن نے دو واقعات کے بارے میں خصوصی طور پر ذکر کیا ہے کہ پولیس نے بے قصوروں کو بے دردی سے گولی ماری تھی، ان میں ایک واقعہ جنوبی ممبئی میں محمد علی روڈ پر واقع سلیمان عثمان بیکری اور متصل مدرسے میں پیش آیا، اور بے گناہوں کو نشانہ بنایاگیا۔ جبکہ دوسرا واقعہ جنوب وسطی ممبئی میں سیوڑی علاقہ میں واقع ہلال مسجد میں پیش آیا جب نہتے نمازیوں پر اندھا دھند فائرنگ کی گئی اور انہیں شرپسند ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔
کمیشن نے پولیس افسران اور اہلکاروں کی ایک فہرست شائع کی تھی جس میں کہا گیا تھا ان پولیس اہلکاروں نے کئی موقعوں پر تعصب کا مظاہرہ کیا جن میں بعد میں ممبئی کے پولیس کمشنر بنائے گئے آرڈی تیاگی سرفہرست تھے، کمیشن کا خیال ہے کہ پولیس کے ذہن میں ایک عام تاثر ہے کہ مسلمان شرپسند ہوتے ہیں اور اس کا اعتراف خصوصی برانچ کے ایک اعلیٰ افسر وی این دیشمکھ نے بھی کمیشن کے سامنے کیا ہے۔