قرآن کریم میں اللہ رب ا لعزت نے شرک کو ظلم عظیم فرمایا ہے اور اعلان کر دیا ہے کہ وہ شرک کو معاف نہیں کرے گا، بقیہ جس گناہ کو وہ چاہے گا معاف کر دے گا ، شرک ہے کیا ؟ شرک اللہ کی ذات وصفات میں دوسرے کو شریک کرنا ہے، اللہ کے علاوہ کسی اور کے آگے جبین نیاز جھکانا ہے اور قادر مطلق کے علاوہ کسی اور کو کارساز حقیقی ماننا ہے، صوفیاء کرام کے یہاں کسی چیز کی نسبت ظاہری اسباب کی طرف کرنا بھی شرک خفی ہے، مثلا پیٹ میں تکلیف ہو رہی ہے تو یہ کہنا کہ کچی روٹی کھانے کی وجہ سے تکلیف ہو رہی ہے، ان کے نزدیک توحید کے منافی ہے، کیوں کہ تکلیف بھی اللہ دیتا ہے اور دور بھی وہی کرتا ہے، دوائیاں اسباب کے درجہ میں بیماری دور کرنے کے لیے کھائی جاتی ہیں، لیکن ہم دوا کو شفا دینے والا نہیں کہہ سکتے ، شفا دینے والی ذات صرف اور صرف اللہ کی ہے، اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں۔
یہاں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ شرک کو ظلم عظیم کیوں کہا گیا ؟ وجہ یہ ہے کہ اللہ رب العزت بڑا غیور ہے، جب اس کی کٹ گیری اور گروپ کا دوسرا کوئی نہیں ہے تو بھلا دوسرے گروپ کے کسی کو خواہ وہ جیسا ہو ، اللہ کے ساتھ کس طرح شریک کیا جا سکتا ہے، جب کہ ہمارا حال یہ ہے کہ ہمارا جسم دوسرے گروپ کے خون تک قبول کرنے کو تیار نہیں ، اگر بغیر گروپ ملائے کسی کا خون جسم میں داخل کیا گیا تو آدمی کی جان جا سکتی ہے۔
اللہ کہتے ہیں کہ اس کائنات میں دوہی گروپ ہے، ایک گروپ اللہ کا ہے، جو بے نیاز ہے، جسے کسی چیز کی حاجت نہیں، وہ نہ تو کھاتا ہے، نہ پیتا ہے، نہ سوتا ہے، نہ اسے ہوا کی ضرورت ہے اور نہ ہی حیات کی بقا کے لیے کسی اور چیز کی ،و ہ ہر چیز سے بے نیاز ہے، مستغنی ہے، بقیہ ساری دنیا کے لوگ فقیر ہیں، محتاج ہیں، ضرورت مند ہیں، اور ان ضرورتوں کی تکمیل کے لیے خالق کائنات کے دست نگر ہیں، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے، کہہ دیجئے کہ اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے، اس کو کسی نے پیدا نہیں کیا اور نہ اس نے انسانوں کی طرح کسی کو پیدا کیا اور اس کا ہم سر کوئی نہیں۔
جب اس کا ہم سر کوئی نہیں، گروپ کا کوئی نہیں، تو شرکت کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے، اور جس طرح بغیر گروپ ملائے مریض کو خون چڑھا دیا جائے تو مریض کے مرنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، ٹھیک اسی طرح اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے تو ایمان مر جاتا ہے، اس لیے اللہ اس جرم کو معاف کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
اللہ کی غیرت کے سامنے انسانوں کی حیثیت ہی کیا ہے، آپ کا چمڑا آپ کے بچے کو راس نہیں آتا ہے، آپریشن ہوتا ہے اور زخم جلد بھرنے کے لیے الگ سے چمڑہ لگا نے کی ضرورت ہوتی ہے ، تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ مریض کے جسم کے دوسرے حصے سے چمڑہ کاٹ کر زخم پر لگایا جاتا ہے، اب کوئی باپ ڈاکٹر سے یہ کہے کہ میرے بچے کو تو ایک زخم پہلے ہی ہے، دوسرا زخم اس کو مت لگاؤ ، چمڑے کی ضرورت ہے تو میرے جسم کا چمڑہ لے لو ، تو ڈاکٹر کہے گا کہ تم اپنے دماغ کا علاج کراؤ، تمہارا چمڑہ تمہارے لڑکا کا جسم قبول نہیں کرے گا، اس لیے اسے دوسرا زخم لگانا ہی ہوگا، تاکہ پہلا زخم جلد بھر جائے، حالاں کہ دونوں کا ’’ڈی این اے‘‘ ایک ہے اور سائنسی اعتبار سے ’’جینٹک‘‘ بھی ایک دوسرے کا مماثل ہے، لیکن اس کے با وجود چمڑہ دوسرے کے جسم کا کوئی جسم قبول نہیں کرتا۔
ایک مثال اور لیں، گردہ تبدیل کرنا ہو اور کوئی دوسرا آدمی گردہ عطیہ کرنے کو تیار ہو تو کیا بغیر خلیات اور ٹیشوز ملائے گردہ ٹرانسپلانٹ ہو سکتا ہے؟ کبھی نہیں، اس لیے کہ اگر ٹشوز اور خلیات نہیں ملے تو دوسرا گردہ بھی جسم میں جا کر معطل ہو جائے گا، اور بہت ممکن ہے کہ انفکشن کی وجہ سے جان کے لالے پڑ جائیں۔
جب ہمارا یہ حال ہے تو بھلا خدا کی غیرت کا کیا پوچھنا، اس لیے ہر وقت اور ہر سطح پر یہ خیال رہنا چاہیے کہ اللہ کا کوئی ہم سر نہیں ہے، اس کا گروپ بندوں کے گروپ سے بالکل الگ تھلگ ہے، جس میں کوئی دوسرا شریک ہو ہی نہیں سکتا۔
شرک جلی اور خفی دونوں سے پر ہیز کرنا چاہیے، نہ اللہ کی ذات میں کسی کو شریک ٹھہرانا چاہیے اور نہ ہی اللہ کی صفات میں ، اس لیے کہ اللہ جب تک نہ چاہے کسی سے کچھ نہیں ہوتا ، کار ساز مطلق وہی ہے جو ہماری ضرورت کی تکمیل کے لیے کافی ہے، جس نے اس نکتہ کو سمجھ لیا اور اس حقیقت کو پا لیا ، اس کے لیے دنیا وآخرت کی بھلائی ہے اور جس نے اللہ کے علاوہ کسی کو حقیقی کار ساز سمجھا وہ دنیا وآخرت دونوں میں خسارے میں ہوگا۔