Parvathy wins Quran recitation competition
قابلِ فخر مسلم نوجوان قومی خبریں

غیر مسلم لڑکی کی تلاوتِ قرآن کے مقابلہ میں کامیابی

‘سارے جہاں سے اچھا ہندوستان’ میں دن بہ دن بگڑتے ماحول کے درمیان آج بھی گنگا جمنی تہذیب کہیں نہ کہیں برقرار ہے اور اس کی جیتی جاگتی مثال کیرالہ کے کوزی کوڈ کی رہنے والی چوتھی جماعت کی غیر مسلم طالبہ پاروتی ہے جس نے قرآن مجید کی تلاوت کے مقابلے میں پہلی پوزیشن حاصل کرکے انعام کی حقدار بھی بنی۔

کیرالہ کے کوزی کوڈ میں چوتھی جماعت کی ایک غیر مسلم طالبہ نے اس وقت سرخیوں میں آئی جب اس نے تلاوت قرآن کے مقابلے میں پہلا انعام حاصل کیا۔

کوزی کوڈ میں منعقدہ تھوڈنور سب ڈسٹرکٹ آرٹس فیسٹیول میں پاروتی نامی اس لڑکی نے یہ کامیابی حاصل کی ہے۔ چیماراتھر ایل پی اسکول میں یہ لڑکی زیر تعلیم ہے اور اس کی جڑواں بہن پروانہ ہے، جو عربی میں بھی اچھی ہے، انہوں نے اپنے اسکول ٹیچر رقیہ سے عربی سیکھی۔

پاروتی کے والد، نلیش بوبی، کوزی کوڈ میں کام کرنے والے آئی ٹی پروفیشنل ہیں۔جبکہ اس کی ماں دینا پربھا، انگریزی کی ٹیچر ہیں۔ یہ اس کے والدین تھے جنہوں نے سوچا کہ نئی زبان سیکھنا ضروری ہے۔

انہوں نے اپنے بچوں کو ایسی زبان سیکھانے کا ارادہ کیا جو وہ نہیں جانتے ہیں۔ پاروتی کے اسکول کے اساتذہ نے کہا کہ پاروتی نے ثابت کر دیا ہے کہ زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ اس خبر سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ زبان آپ کو طاقت دیتی ہے ۔آپس میں جوڑ تی ہے اور تہذیبوں میں پل بنانے کا کام کرتی ہے۔

پاروتی، ہندو خاندان سے ہونے کے باوجود، قرآن کی تلاوت کے مقابلے میں اے گریڈ کے ساتھ پہلا انعام جیت کر عربی میں اپنی روانی سے سب کو حیران کر دیا۔

بلاشبہ کسی دوسری زبان کے سیکھنے میں گھر کا ماحول اور والدین کی تربیت اور حوصلہ افزائی کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔

ممتاز اسلامی اسکالر پروفیسر اختر الواسع نے اس خبر پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ خوشی کی بات تو ہے لیکن تعجب کی نہیں۔ یہی ملک کی تہذیب اور ثقافت ہے۔ یہی گنگا جمنی تہذیب ملک کی بنیاد ہے۔ میں اس بچی کو مبارک باد دیتا ہوں ساتھ ہی اس کے والدین کو بھی۔ جنہوں نے موجودہ ماحول میں اس کو نہ صرف عربی سیکھنے کی اجازت دی، حوصلہ افزائی کی بلکہ اسے تلاوت قرآن کے مقابلہ میں شرکت کرنے کا بھی حوصلہ دیا۔ یہی خوبی ہے جو ہمیں ہندوستانی اور ملک کو ہندوستان بناتی ہے۔