اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں متعدد ممالک نے ہندوستان میں انسانی حقوق کی صورتِ حال کا معاملہ اٹھایا اور ہندوستان سے اپیل کی کہ وہ اپنے ملک میں جنسی تشدد اور مذہبی امتیاز کے بڑھتے واقعات پر سخت مؤقف اختیار کرے۔
کونسل میں امریکی سفیر مشل ٹیلر نے بھارت میں انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق انتہائی سخت قانون ‘یو اے پی اے’ کے استعمال کو کم کرنے کی سفارش کی۔
انہوں نے کہا کہ قانونی تحفظ کے باوجود صنف اور مذہب کی بنیاد پر تشدد اور امتیاز کا سلسلہ جاری ہے۔ مذکورہ قانون کے استعمال کی وجہ سے انسانی حقوق کے کارکنوں کو طویل عرصے تک جیلوں میں رہنا پڑرہا ہے۔
بعض ممالک نے بھارت کے شہریت کے ترمیمی قانون (سی اے اے) کا معاملہ اٹھایا جس کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے مبینہ طور پر مذہب کی بنیاد پر ستائے جانے کی وجہ سے ہندوستان آنے والی اقلیتوں کو جیسےہندو، سکھ، جین، عیسائی، پارسی اور بودھ افراد کو شہریت دینے کا انتظام ہے۔ اس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا۔
کینیڈا نے بھارت میں جنسی تشدد کے تمام واقعات کی تحقیقات، مذہبی تشدد کو روکنے اور مذہبی آزادی کے تحفظ پر زور دیا جب کہ نیپال نے کہا کہ ہندوستان کو خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد اور امتیاز کے خلاف سختی سے کارروائی کرنا چاہیے۔
واضح رہے کہ انسانی حقوق کی تنظیموں اور کارکنوں کی جانب سے ہندوستان کی بی جے پی حکومت پر مذہبی اقلیتوں، صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا الزام لگایا جاتا رہا ہے جبکہ حکومت ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔
خیال رہے کہ اقوامِ متحدہ کی جانب سے ہر سال تمام 193 رکن ممالک پر مشتمل ‘یونیورسل پیریاڈک ریویو ورکنگ گروپ’ کا اجلاس منعقد کیا جاتا ہے، جس میں کسی ایک ملک کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ رواں برس اس اجلاس کا آغاز سات نومبر کو جینیوا میں ہوا جو 18 نومبر تک جاری رہے گا۔
اس سے قبل تین بار اپریل 2008، مئی 2010 اور مئی 2017 میں بھارت میں انسانی حقوق کے ریکارڈ کا جائزہ لیا گیا تھا۔ حالیہ جائزے کے سلسلے میں رپورٹ 16 نومبر کو جاری کی جائے گی۔