نئی تعلیمی پالیسی2020ء میں مادری زبان میں تعلیم کی سہولت فراہم کرانے کی بات بار بار دہرائی گئی ہے، مدھیہ پردیش سرکار نے اس کام کو آگے بڑھانے کی غرض سے میڈیکل نصاب سے جڑے تین موضوعات پر کتابیں ہندی میں تیار کرائی ہیں اور ان کا اجرا وزیر داخلہ امیت شاہ نے کر بھی دیا ہے۔ اس موقع سے انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ انجینئرنگ، پولیٹکنک اور وکالت کی تعلیم کے لئے بھی ہندی میں کتابیں دستیاب کرائی جائیں گی، یہ ایک اچھی پہل ہے، اور اس کام کے آگے بڑھنے سے ہندی زبان کو فروغ ہوگا۔
دوسری بات یہ ہے کہ مادری زبان صرف ہندی ہی نہیں ہے، اردو، بنگالی، میتھلی، تامل ، پنجابی، بھوجپوری، وغیرہ بھی ہے، اردو کو بہار میں دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے، تو کیا سرکار کے لیے یہ ممکن ہوگا کہ ان زبانوں میں بھی نصابی کتابیں تیار کرائے، تیار ہو بھی جائے تو بر وقت فراہمی کا مسئلہ بھی سامنے آئے گا، تجربہ تو یہی بتاتا ہے کہ مادری زبان میں یا تو کتابیں شائع نہیں ہوتی ہیں، یا ہوتی ہیں تو طلبہ وطالبات تک پہونچ ہی نہیں پاتی ہیں، اردو میں شائع اسکولی کتابوں کو گودام میں سڑ گل جانے کی خبریں برابر آتی رہی ہیں۔
ہندی کی طرح دوسری زبانوں میں بھی اصطلاحات کے لیے متبادل الفاظ کا انتخاب نا ممکن نہیں تو دشوارضرور ہوگا، صرف اردو زبان کو ہی لیں توتشکیلیات اور ساختیات کے نام پراب تک جو کام ہوا ہے، وہ غیر اطمینان بخش ہے، وحید الدین سلیم اس فن کے آخری آدمی تھے، جنہوں نے اصول وضوابط کی پابندی کے ساتھ اس کام کو کیا تھا، ہمارے دور میں اصول وضوابط سے صرف نظر کرکے الفاظ کی تشکیل ہو رہی ہے، جو بے جوڑ بھی ہے اور تعقید معنوی کا شکار بھی۔
نئی تعلیمی پالیسی میں نفاذ کی مدت 2040ء تک مقرر کی گئی ہے، اگر حکومت اس مدت میں مختلف مادری زبانوں میں پیشہ وارانہ تعلیم کی کتابیں تیار کرادے تو یہ بھی بڑا کام ہوگا، اس کے لیے ابتدائی تعلیم سے مادری زبان میں کتابوں کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا، ورنہ ابتدائی درجات میں دوسری زبان میں طلبہ وطالبات کے تعلیم پانے کے بعد یہ ممکن نہیں ہو سکے گا، جیسا کہ آج کل انگلش میڈیم کا رواج ہے اور نر سری ، ایل کے جی سے ہی مادری زبان سے زیادہ انگریزی میں تعلیم کو اہمیت دی جاتی ہے۔
ایسے میں اعلیٰ تعلیم کے لیے مادری زبان کا استعمال ہمارے طلبہ وطالبات کو تعلیم کے میدان میں آگے نہیں لے جائے گا۔ پیچھے دھکیل دے گا اور باہر ملکوں میں ان کی ملازمت بھی نا ممکن نہیں تو دشوار ہوگی، اس لیے اس کو رائج کرنے کے پہلے ان امور پر تبادلۂ خیال اور غور وفکر کی خاص ضرورت ہے،یہ ضرورت اس لیے بھی سمجھ میں آتی ہے کہ پڑوسی ملک پاکستان میں اردو سرکاری زبان ہونے کے باوجود پیشہ وارانہ تعلیم کے لئے اردو نصاب رائج کرنا تو دور کی بات ہے اب تک بنایا بھی نہیں جاسکا ہے۔
در اصل ہو یہ رہا ہے کہ جب سرکارمادری زبان بولتی ہے تو اس کے ذہن میں صرف ہندی ہوتی ہے، حالاں کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے، اور جو لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ مریض سے گفتگو ہندی میں ہوتی ہے تو تعلیم کیوں نہیں ؟ یہ اتنی بھونڈی سطحی اور غیر منطقی بات ہے کہ اس پر بحث کرنا بھی فضول ہے، کیوں کہ مریض سے گفتگو اصلا مریض کی زبان میں ہوتی ہے۔ مریض دنیا کی کسی زبان کا بولنے والا ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر کی سمجھ میں اگر وہ زبان نہیں آتی ہے تو اس کے لیے مترجم رکھے جاتے ہیں، بہت سارے لوگ اس کام سے لگے ہوئے ہیں اور اسپتال والے مریضوں سے ہی ان کی اجرت لیتے ہیں، ڈاکٹر حضرات نسخے انگریزی میں ہی لکھتے ہیں، دواؤں پر فارمولے بھی انگریزی میں ہوتے ہیں، صرف تعلیم ہندی میں شروع کرنے سے بات نہیں بنے گی۔
مادری زبان میں پیشہ وارانہ تعلیم کا مزاج ورواج دنیا کے بیش تر ملکوں میں نہیں ہے، جن ملکوں میں مادری زبان میں تعلیم ہو رہی ہے ان کو انگلیوں پر گناجا سکتا ہے، ان ملکوں میں چین، فرانس ، جاپان اور جرمنی کا نام آتا ہے، با خبر ذرائع کے مطابق ان ملکوں میں بھی متبادل کے طور پر انگریزی میں رائج الفاظ کا بھی ذکر ہوتا ہے تاکہ معنی ومفہوم کے سمجھنے میں طلبہ وطالبات کو دشواری نہ پیش آئے،ڈاکٹر نسخہ میں دواؤں کے نام انگریزی میں ہی لکھتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ ان ملکوں میں بھی ملکی زبان میں جو تعلیم دی جارہی ہے اس میں انگریزی کا استعمال بھی ہوتا ہے اور ابھی تک اس سے جان نہیں چھوٹی ہے۔
ہماری سوچ یہ ہے کہ پیشہ وارانہ تعلیم مادری زبان میں فراہم کرنے کا خواب دیکھنا بُرا نہیں ہے، لیکن ہمیں معیار تعلیم سے سمجھوتہ کسی حال میں نہیں کرنا چاہیے، نصابی کتابوں کو مادری زبان میں فراہمی کے لیے جتنے مراحل سے گذر نا ضروری ہے ، ان سے گذر جائے،تو اسے نافذ کیا جائے فی الوقت تو یہ بات خوش فہمی سے زیادہ نہیں معلوم ہوتی، آپ بھی انتظار کیجئے ہم بھی انتظار کرتے ہیں۔