کیوبا میں امریکہ کے زیر انتظام گوانتاناموبے کے حراستی مرکز میں سب سے معمر قیدی سیف اللہ پراچہ کو تقریباً 20 سال تک بغیر کسی مقدمے کے حراست میں رکھنے کے بعد رہا کرکے ان کے آبائی ملک پاکستان بھیج دیا گیا ہے۔
پاکستان کی وزارت خارجہ نے ہفتے کے روز ایک بیان میں کہا کہ "وزارت خارجہ نے پراچہ کی وطن واپسی میں سہولت فراہم کرنے کے لیے ایک وسیع انٹر ایجنسی عمل مکمل کیا۔”
سیف اللہ پراچہ کو سی آئی اے نے جولائی 2003 میں بنکاک ائیر پورٹ سے حراست میں لیا جس کے بعد افغانستان کے بگرام ائیر بیس پر منتقل کیا گیا جہاں انھیں بتایا گیا کہ انھیں القاعدہ کو معاونت فراہم کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔
الجزیرہ کے مطابق مئی میں امریکہ نے پراچہ کی رہائی کی منظوری صرف اس نتیجے پر دی کہ وہ امریکہ کے لیے "مسلسل خطرہ نہیں” تھے۔
گوانتانامو کے بیشتر قیدیوں کی طرح پراچہ پر کبھی بھی باضابطہ طور پر فرد جرم عائد نہیں کی گئی تھی اور ان کے پاس اپنی نظر بندی کو چیلنج کرنے کا بہت کم قانونی اختیار تھا۔
پراچہ نے ایک بار گوانتاناموبے کی زندگی کو "اپنی اپنی قبر میں زندہ رہنا” کے طور پر بیان کیا۔ برطانیہ میں قائم انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ریپریو نے پراچہ کو "ہمیشہ کے لیے قیدی” قرار دیا۔
تنظیم نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ "یہ ایک بہت بڑی جیت ہے لیکن 75 سالہ سیف اللہ پراچہ اپنی زندگی کے ابتدائی دن جیل میں بغیر کسی قصور کے گذارنے کے بعد ایک کمزور بوڑھے آدمی کی حیثیت سے اپنے گھر لوٹ رہے ہیں۔ اس ناانصافی کو کبھی بھی ٹھیک نہیں کیا جا سکتا”۔
انسانی حقوق کی تنظیم نے الزام عائد کیا کہ پراچہ ایک کامیاب تاجر اور مخیر حضرات میں سے تھے جنہیں امریکی اہلکاروں نے تھائی لینڈ میں کاروباری دورے کے دوران اغوا کیا تھا۔
تنظیم نے کہا کہ "پراچہ کو حراست میں لینے کے بعد بگرام ایئر بیس پر پہنچا دیا گیا، جو کہ ایک امریکی بلیک سائٹ ہے جو قیدیوں پر ہولناک تشدد کے لیے بدنام ہے۔ ایک سال بعد انہیں بیڑیوں میں جکڑ کر گوانتانامو منتقل کردیا گیا تھا، امریکی حراست کے دوران ان کی صحت بری طرح بگڑ گئی جس میں دو دل کے دورے بھی شامل تھے‘‘۔
واضح رہے کہ گوانتانامو دنیا کا سب سے بدنام حراستی مرکز 9/11 کے بعد 2001 میں افغانستان پر حملے کے دوران پکڑے گئے القاعدہ کے مشتبہ ارکان کو رکھنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ 700 سے زائد افراد ایک دہائی سے زائد عرصے سے وہاں قید تھے جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔
الجزیرہ کے مطابق امریکہ کی نام نہاد "دہشت گردی کے خلاف جنگ” کے دوران قید 780 قیدیوں میں سے 732 کو بغیر کسی الزام کے رہا کر دیا گیا۔ تقریباً 40 قیدی وہاں ابھی بھی موجود ہیں۔