کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں لڑکیوں کو اسکول ڈریس کے ساتھ آنے کے لزو م کے ساتھ حجاب پر پابندی لگا دی گئی تھی، با غیرت و باحمیت ہماری بچیوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا اور احتجاج کارگر نہیں ہوا تو انہوں نے اسلامی تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان اداروں میں جانا بند کر دیا۔ نتیجۃً ان کا تعلیمی سال برباد ہوا اور ان کے مستقبل پر سیاہ بادل چھا گئے۔
لیکن ان لڑکیوں کی واضح رائے تھی کہ حجاب کے بغیر ہم اسکول نہیں جائیںگے۔ اور شریعت کے حکم پر عمل کو حصول تعلیم پر فوقیت دیں گے ۔کیوںکہ ہندوستان میں یہ ہمارا دستوری حق ہے۔ اور اس دستوری حق کے حصول کے لیے 15مارچ 2022کو کرناٹک کے ضلع اوڈوپی کی کچھ طالبات نے کرناٹک ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی کہ انہیں کلاس روم میں حجاب کے ساتھ جانے کی اجازت دی جائے۔
لیکن کرناٹک ہائی کورٹ نے حجاپ پر پابندی کو برقرار رکھا، معاملہ سپریم کورٹ پہونچا، دو رکنی بنچ میں جسٹس ہیمنت گپتا اور جسٹس سدھانشو دھولیا نے اس کی سماعت کی اور 13اکتوبر 2022کو دونوں ججوں نے فیصلہ سنایا ، جس میں دونوں کی رائے مختلف تھی، جسٹس ہیمنت گپتا کا فیصلہ پابندی برقرار رکھنے کے حق میں تھا جبکہ جسٹس دھولیا کا فیصلہ پابندی ہٹا لینے کے حق میں آیا۔
جسٹس دھولیا نے اپنے فیصلہ میں لکھا ہے کہ اسکولوں میں نظم و ضبط کا ہونا ضروری ہے ، لیکن نظم و ضبط کا قیام آزادی اور وقار کی قیمت پر نہیں کیا جاسکتا۔کسی طالبہ کو اسکول کے گیٹ پر حجاب اتارنے کے لیے کہنا اس کی پرائیویسی اور وقار پر حملہ ہے، انہوں نے دستور ہند کی دفعہ(1) 19اور دفعہ (1)25کا حوالہ دیتے ہوئے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلہ کو غلط ٹھہرایا اور اسے کالعدم قرار دیا۔
دوسری طرف جسٹس ہیمنت گپتا نے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلہ کو برقرار رکھا ، انہوں نے بحث کے دوران کہا تھا کہ اگر لباس کے انتخاب کی اجازت کو بنیادی حق مانا جائے تو برہنہ رہنے کو بھی اسی زمرے میں لانا پڑے گا۔
اسی وقت اندازہ ہو گیا تھا کہ ان کی سوچ کس طرف جا رہی ہے۔ججوں کے فیصلہ میں اس اختلاف کی وجہ سے کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ ابھی برقرار رہے گا اور چیف جسٹس اب اس معاملہ کو بڑی بنچ کے حوالہ کریں گے، جو کم ازکم تین ججوں پر مشتمل ہوگی۔ اس کا مطلب ہے کہ حجاب ابھی کچھ اور دنوں تک بحث کا موضوع بنا رہیگا۔