قرآن حکیم میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: ”ہم نے ہر رسول کو صرف اسی مقصد کے لئے بھیجا ہے کہ اذن خداوندی سے اس کی اطاعت کی جائے“ یہ آیت کریمہ مقصد رسالت کو بالکل واضح کرکے ہر رسول کی بنیادی خصوصیت کو بیان کرتی ہے کہ رسول کی بعثت کا بنیادی مقصد اطاعت رسول ہے۔ اب ہم رسول پر ایمان لاتے ہیں تو اس ایمان میں پانچ باتیں لازماً شامل ہوتی ہیں۔
ایک یہ کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری رسول اور خاتم النبیین ہیں۔ دوسری یہ کہ بنی نوع انسان کے لئے آپﷺ کامل نمونہ ہیں۔ تیسری یہ کہ آپﷺ کے ہر قول و فعل میں حکمت ہے۔ چوتھی یہ کہ فوز و فلاح کی راہ وہی ہے، جو آپﷺ نے دکھائی۔ پانچویں یہ کہ جو نظام زندگی آپﷺ نے دیا، وہی انسانیت کے لئے صحیح اور درست ہے۔
جب تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر اعتماد کامل نہ ہو، اس وقت تک ایمان کا مزا ہی نہیں آتا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ایمان کا مزا اس نے چکھا اور ایمان کی لذت اس کو ملی، جو اللہ کو اپنا رب، اسلام کو اپنا دین اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رسول ماننے پر دل سے راضی ہو گیا“ (مسلم شریف)
جس طرح مادی غذاؤں میں لذت ہوتی ہے، اسی طرح ایمان میں بھی ایک خاص لذت اور حلاوت ہوتی ہے، لیکن یہ لذت و حلاوت انھیں خوش نصیبوں کو حاصل ہوتی ہے، جو پورے شرح صدر کے ساتھ اللہ کو اپنا رب، اسلام کو اپنا دین اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رسول مان لیں۔کسی نبی اور رسول کو اللہ تعالی کی طرف سے اس لئے نہیں بھیجا گیا کہ اسے صرف مان لیا جائے کہ وہ نبی یا رسول ہیں۔
اللہ تعالی کی ذات کسی بے مقصد اور لایعنی بات کا حکم دینے سے پاک ہے۔ اللہ تعالی اپنے بندوں سے براہ راست گفتگو نہیں کرتا، بلکہ انبیاءکرام علیہم السلام کے توسط سے کرتا ہے۔ انبیاءکرام ہی بندگان خدا کو خدا کی مرضیات اور نامرضیات سے آگاہ کرتے ہیں۔ وہی بتاتے ہیں کہ اللہ تعالی کن کاموں سے خوش ہوتا ہے اور کن کاموں سے ناخوش ہوتا ہے، اس لئے ہر نبی نے یہ اعلان کیاکہ ”تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو“ (بخاری شریف)
ایک حدیث شریف اس آیت کے مفہوم کو مزید واضح کرتی ہے کہ ”جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی، اس نے اللہ کی نافرمانی۔ اللہ کے ماننے والوں اور نہ ماننے والوں میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی نشان امتیاز ہیں“۔
حضور اکرم ﷺکی صرف اطاعت ہی کا حکم نہیں دیا گیا، بلکہ آپﷺ کے اتباع کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ اتباع، اطاعت سے آگے کی چیز ہے۔ اطاعت کے معنی ہیں حکم ماننا، حکم کی تعمیل کرنا اور اتباع کے معنی ہیں ”پیروی کرنا“ یعنی پیچھے چلنا۔ یہ دونوں الفاظ قریب المعنی ہونے کے باوجود، ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔ مثلاً اطاعت کا دائرہ محدود ہوتا ہے اور اتباع کا دائرہ بہت زیادہ وسیع ہوتا ہے۔
اطاعت میں فرائض اور واجبات شامل ہوتے ہیں، جب کہ اتباع میں فرائض اور واجبات کے علاوہ نوافل اور مستحبات بھی شامل ہوتے ہیں۔ بعض حالات میں اطاعت ظاہری اور رسمی بھی ہوسکتی ہے، لیکن اتباع میں ظاہر اور باطن دونوں یکساں ہو جاتے ہیں۔ اطاعت میں ”مطاع“ کی عظمت پیش نظر ہوتی ہے، جب کہ اتباع میں ”متبع“ کی محبت اور عقیدت کا جذبہ غالب ہوتا ہے۔
اطاعت سے انسان خدا کا محب ہوتا ہے اور خدا اس کا محبوب، لیکن اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے انسان خدا کا محبوب اور خدا اس کا محب ہوتا ہے۔ اطاعت کی نسبت خدا اور رسول دونوں کی طرف ہوسکتی ہے، لیکن اتباع کی نسبت رسول کی طرف ہوتی ہے، خدا کی طرف نہیں۔ کیونکہ اتباع کے لئے شخصیت کا ہونا ضروری ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شخصیت ہیں۔ اتباع کی نسبت خدا کی طرف اس لئے نہیں کی جاسکتی کہ خدا، وجود ہے شخصیت نہیں۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ ”اے نبی (ﷺ) آپ بتادیں کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو، پھر اللہ بھی تم سے محبت کرے گا“۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کی محبت حاصل کرنا چاہتے ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرو۔ یہ بڑی معنی خیز آیت ہے، یعنی اتباع رسول سے پہلے اللہ تعالی محبوب ہے اور بندہ محب ہے، لیکن جب اتباع کی منزل طے ہوتی ہے تو اب صورت حال پلٹ جاتی ہے۔ اتباع رسول کے بعد بندہ اللہ کا محبوب ہوجاتا ہے اور اللہ تعالی اس کا محب، پھر تو ساری خدائی بندے کی ہے۔ شاید اسی بات کو علامہ اقبال نے یوں بیان کیا ہے:
کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا! لوح و قلم تیرے ہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وفا کا مطلب آپﷺ کی اتباع ہے، اللہ تعالی نے اپنی محبت کو رسول کی اتباع سے مشروط کردیا ہے اور اسی اتباع کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو ”اسوہ“ بنایا گیا ہے۔ یہاں ایک اور نکتہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اسوہ کے معنی صرف نمونے ہی کے نہیں ہیں، بلکہ اس کے معنی اور بھی ہیں۔
اسوہ اس چیز کو بھی کہتے ہیں، جس سے تسلی اور تشفی ہو جائے اور بے چینی میں سکون حاصل ہو جائے۔ ان دونوں معنی کو سامنے رکھا جائے تو مطلب یہ ہوا کہ اسوہ¿ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ چیز ہے، جس سے ہم کو تسلی، تشفی اور آسودگی نصیب ہوگی۔ اللہ تعالی ہم سب کو اس نکتہ کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)