جشن میلاد النبیﷺ قرآن و حدیث کی روشنی میں
اسلامی مضامین

جشن میلاد النبیﷺ قرآن و حدیث کی روشنی میں

دنیا بھر میں 12 ربیع الاول کو نبی آخر الزماں ﷺ کی ولادت کی خوشی میں جشن میلاد النبی ﷺ منایا جاتا ہے۔ اس دن مختلف پروگرامز منعقد کیے جاتے ہیں، غریبوں کو کھانا کھلانا، ختم قرآن کا اہتمام، محفل نعت خوانی، جلسہ سیرت النبیﷺ اور اس کے علاوہ دیگر نیک کاموں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

میلاد کے لغوی معنی
1: میلاد۔۔۔ پیدا ہونے کا زمانہ، پیدائش کا وقت
2: وہ مجلس جس میں پیغمبر حضرت محمدﷺ کی ولادت باسعادت کا بیان کیا جائے۔ وہ کتاب جس میں پیغمبرﷺ کی ولادت کا حال بیان کیا جاتا ہے۔

اصطلاحی مفہوم :۔ حسن مثنی ندوی لکھتے ہیں ”حضور اکرم نور مجسم محمدﷺ کی ولادت باسعادت کے تذکرے اور تذکیر کا نام محفل میلاد ہے۔ اس تذکرے اور تذکیر کے ساتھ ہی اگر دلوں میں مسرت و خوشی کے جذبات کروٹ لیں۔ یہ شعور بیدار ہوکہ کتنی بڑی نعمت سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں سرفراز کیا اور اس کا اظہار بھی ختم الرسلﷺ کی محبت و اطاعت اور خداوند بزرگ و برتر کی حمدوشکر کی صورت میں ہو اور اجتماعی طور پر ہو تو یہ عید میلاد النبیﷺ ہے۔ (سیارہ ڈائجسٹ لاہور رسول نمبر 1973ئ(جلد دوم) ص 445)

قرآن مجید سے جشن ولادت منانے کے دلائل :۔

* اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ترجمہ ”اور اپنے رب کی نعمت کے خوب چرچے کرو“ (سورة الضحی، ) معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ حکم دے رہا ہے کہ جو تمہیں میں نے نعمتیں دی ہیں، ان کا خوب چرچا کرو، ان پر خوشیاں مناو۔ ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی بے شمار نعمتیں ہیں۔ کان، ہاتھ، پاوں، جسم، پانی، ہوا، مٹی وغیرہ اور اتنی زیادہ نعمتیں ہیں کہ ہم ساری زندگی ان کو گن نہیں سکتے۔ خود اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ترجمہ ”اور اگر اللہ کی نعمتیں گنو تو شمار نہ کرسکو گے“ (پارہ13)

معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی گنتی ہم سے نہیں ہوسکتی۔ تو پھر ہم کن کن نعمتوں کا پرچار کریں۔ عقل کہتی ہے کہ جب گنتی معلوم نہ ہوسکے تو سب سے بڑی چیز کو ہی سامنے رکھا جاتا ہے۔ کیونکہ وہی نمایاں ہوتی ہے۔ اسی طرح ہم سے بھی اللہ پاک کی نعمتوں کی گنتی نہ ہوسکی تو یہ فیصلہ کیا کہ جو نعمت سب سے بڑی ہے اس کا پرچار کریں۔ اسی پر خوشاں منائیں تاکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل ہوسکے۔ سب سے بڑی نعمت کون سی ہے؟ آیئے قرآن مجید سے پوچھتے ہیں ترجمہ ”اللہ کا بڑا احسان ہوا مومنوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا۔ جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے“ (سورة آل عمران ) اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتیں عطا فرمائیں مگر کسی نعمت پر بھی احسان نہ جتلایا۔

قابل غور بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی اور نعمت پر احسان کیوں نہیں جتلایا۔ صرف ایک نعمت پر ہی احسان کیوں جتلایا؟ ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ان گنت نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت آخری نبیﷺ ہیں اور قرآن کے مطابق ہر مسلمان کو اپنے نبیﷺ کی آمد پر خوشیاں منانی چاہئیں ۔* قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔ ترجمہ ”تم فرماو اللہ عزوجل ہی کے فضل اور اسی کی رحمت، اسی پر چاہئے کہ وہ خوشی کریں۔ وہ ان کے سب دھن و دولت سے بہتر ہے“ (سورة یونس)لیجئے! اس آیت میں تو اللہ تعالیٰ صاف الفاظ میں جشن منانے کا حکم فرما رہا ہے۔ کہ اس کے فضل اور رحمت کے حصول پر خوشی منائیں۔ قرآن نے فیصلہ کردیا کہ نبی کی آمد کا جشن مناو کیونکہ اللہ کے نبیﷺ سے بڑھ کر کائنات میں کوئی رحمت نہیں۔ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ترجمہ ”اور ہم نے تم کو نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہاں کے لئے“ (پارہ 17 )

مسلمان اگر رحمة للعالمین ﷺکی آمد کی خوشی نہیں منائیں گے تو اور کون سی رحمت پر منائیں گے۔ لازم ہے کہ مسلمان رحمت دوعالمﷺ کی آمد کا جشن منائیں۔

احادیث مبارکہ سے جشن منانے کے دلائل :۔

* اپنی آمد کا جشن تو خود آقاﷺ نے منایا ہے۔ تو ان کے غلام کیوں نہ منائیں؟ چنانچہ حضرت سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ بارگاہ رسالت میں عرض کی گئی کہ ”یارسول اللہ ﷺ آپ پیر کے دن کا روزہ کیوں رکھتے ہیں؟“ آپﷺ نے جواب دیا ”اسی دن میں پیدا ہوا اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی“ (صحیح مسلم شریف جلد اول) نبی ﷺکے غلامو! خوش ہوجاو¿ اور خوشی سے اپنے نبیﷺ کی آمد کا جشن منایا کرو کیونکہ یہ جشن تو خود آقاﷺ نے منایا ہے۔ اس کرہ ارض پر بسنے والے کسی بھی عالم دین (اگرچہ وہ صحیح عالم ہو) سے نبیﷺ کے پیر کے روزے کے متعلق دریافت کیجئے، اس کا جواب یہی ہوگا کہ نبیﷺ نے اپنی ولادت کی خوشی میں روزہ رکھا۔ نبی علیہ السلام اپنی آمد کی خوشی منائے اور نبی علیہ السلام کے غلام اپنے آقا کا جشن نہ منائیں۔

یہ کیسی محبت ہے؟ اسی لئے تو مسلمان ہر سال زمانے کی روایات کے مطابق جشن ولادت مناتے ہیں۔ کوئی روزہ رکھ کر مناتا ہے تو کوئی قرآن کی تلاوت کرکے، کوئی نعت پڑھ کر، کوئی درود شریف پڑھ کر، کوئی نیک اعمال کا ثواب اپنے آقاﷺ کی بارگاہ میں پہنچا کر تو کوئی شیرینی بانٹ کر، دیگیں پکوا کر غریبوں اور تمام مسلمانوں کوکھلا کر اپنے آقاﷺ کی ولادت کا جشن مناتاہے۔ یعنی زمانے کی روایات کے مطابق اچھے سے اچھا عمل کرکے اپنے آقاﷺ کی ولادت کا جشن منایا جاتا ہے۔ پس جو شخص نبیﷺ کو مانتا ہے تو وہ سنت نبویﷺ سمجھ کر اپنے آقا کی ولادت کاجشن منائے گا اور جو شخص نبیﷺ کو نہیں مانتا، وہ اس عمل سے دور بھاگے گا ۔

(2) شیخ محقق حضرت علامہ مولانا شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ کا فرمان مبارک: ”میلاد شریف کرنے والوں کے لئے اس میں سند ہے جوشب میلاد خوشیاں مناتے ہیں اور مال خرچ کرتے ہیں۔ یعنی ابولہب کافر تھا اور قرآن پاک اس کی مذمت میں نازل ہوا۔ جب اسے میلاد کی خوشی منانے اور اپنی لونڈی کے دودھ کو آنحضرتﷺ کے لئے خرچ کرنے کی وجہ سے جزا دی گئی تو اس مسلمان کا کیا حال ہوگا جو محبت اور خوشی سے بھرپور ہے اور میلاد پاک میں مال خرچ کرتا ہے“ (مدارج النبوة دوم)

جشن ولادت کو ”عید“ کہنے کی وجوہات:۔ جبکہ اسلام میں صرف دو عیدیں ہیں، ایک عیدالفطر اور دوسری عیدالاضحی، یہ تیسری عید، عید میلاد النبی ﷺ کاجواز کہاں سے؟ اصل میں عام لوگ ”عید“ کی تعریف سے ہی واقف نہیں۔

عید کی تعریف اور جشن میلاد کو عید کہنے کی وجہ :۔ ابوالقاسم امام راغب اصفہانی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ (المتوفی 502ھ) عید کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”عید اسے کہتے ہیں جو بار بار لوٹ کر آئے، شریعت میں یہ لفظ یوم الفطر اور یوم النحر کے لئے خاص نہیں ہے۔ عید کا دن خوشی کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا ”عید کے ایام کھانے پینے اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ وقت گزارنے کے لئے ہیں“ اس لئے ہر وہ دن جس میں خوشی حاصل ہو، اس دن کے لئے عید کا لفظ مستعمل ہوگیا ہے جیسا کہ اللہ عزوجل کا حضرت عیسٰی علیہ السلام کی دعا سے متعلق ارشاد ہے کہ ”ہم پر آسمان سے خوان (کھانا) اتار کہ وہ ہمارے (اگلوں پچھلوں کے لئے) عید ہو“ اور عید انسان کی اس حالت خوشی کو کہتے ہیں جو بار بار لوٹ کر آئے اور ”العائد“ ہر اس منفعت کو کہتے ہیں جو انسان کو کسی چیز سے حاصل ہو“ علامہ راغب اصفہانی رحمة اللہ علیہ کے مذکورہ بالا کلام سے معلوم ہوا کہ عید ہر اس دن کو کہتے ہیں

1: جس میں انسان کو کوئی خوشی حاصل ہو
2: جس میں اللہ عزوجل کی طرف سے کوئی خصوصی رحمت و نعمت عطا ہوئی ہو۔
3: جسے کسی خوشی کے موقع سے کوئی خاص مناسبت ہو۔ الحمد للہ عزوجل جل ! بارہ ربیع الاول کے موقع پر یہ تینوں صورتیں ہی جمع ہوتی ہیں۔ آپ خود ہی فیصلہ کیجئے کہ ایک مسلمان کے لئے حضور نبی کریمﷺ کے ولادت پاک کے دن سے بڑھ کر کیا خوشی ہوسکتی ہے؟ اس خوشی کے سبب بھی بارہ ربیع الاول کو عید کا دن قرار دیا جاتا ہے۔

آپﷺ جن کے صدقے ہمیں خدا کی پہچان ملی، ایمان کی لازوال دولت ملی، قرآن جیسا بابرکت تحفہ ملا جن کے صدقے زندگی گزارنے کا ڈھنگ آیا اور جن کی ذات اقدس ہمارے لئے سراپا رحمت ہے آپ ﷺ جیسی عظیم ہستی سے بڑھ کر کون سی رحمت اور کون سی نعمت ہے؟ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواری خوان رحمت عطا ہونے والے دن کو عید کہہ سکتے ہیں اور وہ دن ان کے اگلوں پچھلوں کے لئے یوم عید ہوسکتا ہے تو ہم بدرجہ اولیٰ اس بات کے مستحق ہیں کہ امام الانبیاءعلیہ الصلوٰة والسلام کے روز ولادت کو عید میلاد النبیﷺ کا نام دیں اور عید منائیں۔
صحابہ کرام علیہم الرضوان کاجو آپﷺ سے مثالی اور بے لوث محبت کرتے تھے۔ آپﷺ کے وصال کے بعد جشن عید میلاد النبیﷺ منانا!

صحابہ کرام علیہم الرضوان نے بھی حضور پرنورﷺ کا میلاد منایا اور سرور کونینﷺ کے سامنے منعقد کیا۔ رسول اللہﷺ نے منع کرنے کے بجائے خوشی کا اظہار فرمایا ۔ جلیل القدر صحابی حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ بارگاہ رسالتﷺ میں قصیدہ پڑھ کر جشن ولادت منایا کرتے تھے۔حدیث: سرکارﷺ خود حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے لئے منبر رکھا کرتے تھے تاکہ وہ اس پر کھڑے ہوکر سرکارﷺ کی تعریف میں فخریہ اشعار پڑھیں۔

سرکارﷺ حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے فرماتے اللہ تعالیٰ روح القدس (حضرت جبرائیل علیہ السلام) کے ذریعہ حسان کی مدد فرمائے ( بخاری شریف جلد اول) حضرت ابو درداءرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں حضور نبی کریمﷺ کے ساتھ حضرت عامر انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر گیا۔ وہ اپنی اولاد کوحضورﷺ کی ولادت کے واقعات سکھلا رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ آج کا دن ہے۔سرکارﷺ نے اس وقت فرمایا اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کے واسطے رحمت کا دروازہ کھول دیا اور سب فرشتے تم لوگوں کے لئے دعائے مغفرت کررہے ہیں۔