Celebration of Milad-ul-Nabi: An Analytical Study
اسلامی مضامین

جشنِ میلاد النبیﷺ: ایک تجزیاتی مطالعہ

اللہ تعالیٰ قرآن مجید کی سورۃ الاحزاب(33) کی آیت نمبر 56 میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ- یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا {بےشک، اللہ اور اس کے فرشتے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو، تم بھی ان پر خوب درود و سلام بھیجا کرو۔}

درود شریف

ٱللَّٰهُمَّ صَلِّ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَعَلَىٰ آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۰ٱللَّٰهُمَّ بَارِكْ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَعَلَىٰ آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ.

سلام

مصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام،
شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام۔
ہم غریبوں کے آقا پہ بے حد درود،
ہم فقیروں کی ثروت پہ لاکھوں سلام۔

اللہ تعالیٰ کے آخری رسول یعنی خاتم الانبیاء اور رحمت اللعالمین حضرت محمد مصطفیٰ صَلی اللہ تعَالی عَلیْہِ وَالِہٖ وَسَلمَ کی ولادتِ سعید کا مبارک مہینہ ربیع الاول(قمری کیلینڈر کا تیسرا مہینہ) 28 ستمبر 2022ء(بدھ) کو شروع ہو چکا ہے۔ بر صغیر ہند میں 12 ربیع الاول 1444ہجری، یعنی عید میلاد النبی کی تاریخ انگریزی کیلینڈر کے مطابق 9 اکتوبر 2022 عیسوی بروز اتوار ہے۔

ماہِ ربیع الاول مسلم معاشرے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور درود و سلام کی کثرت کا مہینہ ہے۔ ہر طرف سیرت کے جلسے، دینی موضوعات پر وعظ و تقاریر، نعت خوانی اور درود و سلام کی الگ الگ نوعیت کی مختلف مجالس آراستہ کی جاتی ہیں۔ چاروں طرف گویا عید کا ماحول نظر آتا ہے۔ حالاں کہ اسلام میں صرف دو عیدیں ہیں: عید الفطر اور عید الاضحی، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلم ثقافت (Muslim culture) نے میلاد النبی (Birthday of the Prophet) کو ہجری کیلینڈر کے مطابق 12 ربیع الاول کے دن کو عید میلاد النبی کے طور پر منانے کے لیے کم و بیش تیسرے تیوہار کا درجہ عنایت کردیا ہے۔ تقریباً ہر ملک کے مسلمان اس موقع کو غیر معمولی جوش و خروش اور عید کی صورت میں مناتے ہیں۔ اپنے ملک ہندوستان کے تقریباً سبھی شہروں اور قصبوں میں بڑے پیمانے پر جشن میلاد النبی اور جلوسِ محمدی(صلی اللہ علیہ وسلم) کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

حسِ جمالیات اور زیب و زینب کے فطری داعیات کے زیر اثر، موقعہ و محل کی مناسبت سے اور مختلف شکل و صورت میں جشن و تقاریب منعقد کرنا انسان کو ہمیشہ سے مرغوب رہا ہے۔ ہر سال جنم دن منانے کا سلسلہ قوم و ملت کے اکابرین تک محدود نہیں ہے، بلکہ بچے اور بڑے دونوں کے برتھ ڈے منانے کی رسم تقریباً ہر چھوٹے بڑے گھر میں داخل ہوگئی ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک مسلمانوں کے گھروں میں کسی کا برتھ ڈے منانے کا رواج نہیں تھا، مگر آج صورت حال بدل گئی ہے۔

برتھ ڈے منانے کے اسی پس منظر میں مسلمانوں نے بھی ’عید میلاد النبی‘ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے مبارک دن(12 ربیع الاول) کو ایک قومی تیوہار کے جشن کی صورت میں دانستہ یا نا دانستہ طور پر منانا شروع کردیا۔ یہ سلسلہ چل پڑا اور سال در سال اس کی جہت و ہیت(dimensions) میں اضافہ بھی ہوتا جارہا ہے۔ اس ضمن میں عجیب و غریب بات یہ ہے کہ مسلم معاشرے میں شاید ہی کوئی یہ سوچتا ہو کہ جس طرح ہم سب اپنا یومِ پیدائش مناتے ہیں کیا اسی نہج پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یومِ پیدائش منانا مناسب عمل ہے؟

عید میلاد النبی(صلی اللہ علیہ وسلم) کے جشن و جلوس کا اہتمام غور و فکر کے بعد بنائی گئی کسی حکمت عملی کا نتیجہ تو نظر نہیں آتا، البتہ یہ سارا معاملہ مسلمانوں کے ردعمل کی نفسیات سے ضرور متاثر محسوس ہوتا ہے۔ جس طرح دنیا میں قومی قائدین اور مذہبی پیشواؤں کے جنم دن بڑی شان سے مناۓ جاتے ہیں، اسی طرح مسلمانوں کو اپنے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ پیدائش سے وابستہ جشن و جلوسِ میں کچھ معیوب نظر نہیں آیا۔ ایسا لگتا ہے کہ معاشرے میں شائع و ذائع امام احمد رضا خاں بریلوی کی مشہور و معروف نعت:

”سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبیؐ
سب سے بالا و والا ہمارا نبیؐ“

کو مسلمان خود ہی بھول گئے ہیں۔ شاید اسی لیے، ان کو یہ ادراک بھی نہیں رہا کہ کیا ہمارا کوئی جشن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بلند و بالا مقام سے مطابقت رکھ سکتا ہے؟ اس حقیقت کے پیش نظر، عید میلاد النبی کا سالانہ اہتمام مسلم ثقافت اور تمدن (civilization) کا وہ مظاہرہ ہے جو گہری غور و فکر اور سنجیدگی کے ساتھ نظر ثانی کا تقاضا کرتا ہے۔

یہاں قابل غور و خوض بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات خیال و گمان کی حد سے بھی زیادہ اعلیٰ و ارفع ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ تعالیٰ نے نہ صرف منصبِ رسالت کے لیے انتخاب فرمایا، بلکہ خاتم الانبیاء کی انفرادی حیثیت بھی عنایت کی۔ اعلیٰ اخلاق (خُلُقِ عظیم) کے ساتھ ساتھ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمت اللعالمین کا شرف بھی عطا کیا گیا۔

یوم ولادت کی کسی سالانہ رسم کے بجائے، اللہ تعالیٰ نے قیامت کے وقوع پذیر ہونے تک دنیا میں آپ کے ذکر کو بلند رکھنے کے لیے زبردست اہتمام کیا ہے۔ اذان کی شکل میں دن میں پانچ مرتبہ مساجد کے میناروں سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول اللہ ہونے کی گواہی بلند کی جاتی ہے۔ ہر اذان کے بعد مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اپنے پروردگار سے ’مقام محمود‘ سے مشرف کرنے کی دعا کرتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں، ہر نماز میں تشہد کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سلام اور درود شریف کا نذرانہ پیش کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان و مرتبہ کو بلند کرنے والے ان سارے بندوبست کے علاوہ سب سے بڑا اہتمام وہ ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: بےشک، اللہ اور اس کے فرشتے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو، تم بھی ان پر خوب درود و سلام بھیجا کرو(الاحزاب-33: 56)۔

قرآن مجید کے اس پیغام میں واضح رہنمائی موجود ہے کہ مسلمانوں کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے۔ سال میں ایک بار عید میلاد النبی کے طور پر جشن اور جلسہ و جلوسِ کا اہتمام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام اقدس کے شایان شان نہیں۔ صرف وہی کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے مطابق ہو سکتا ہے جس کا حکم خود اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دیا ہے، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے درود و سلام بھیجنا۔ یہ وہ مبارک کام ہے جس کو اللہ تعالیٰ خود اور اس کے فرشتے مسلسل انجام دیتے ہیں۔ یہاں تک آنے کے بعد، اچھی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ مسلمانوں کے آقا، رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم سال میں ایک مرتبہ یاد کی جانے والی کوئی ہماشما(all and sundry) شخصیت نہیں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم درود و سلام کے توسط سے ہر روز، بلکہ ہر گھنٹے یہاں تک کہ ہر لمحہ یاد کی جانے والی عظیم کائناتی شخصیت ہیں۔

دنیا میں اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق جو بھی کام کئے جائیں وہ سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 56 کی روشنی میں اور ان کے رحمت اللعالمین اور خاتم الانبیاء ہونے کے مقام و مرتبہ کے عین مطابق ہونے چاہئیں۔ اسلام کو مسلمانوں کی منعقد کردہ عید میلاد النبی جیسی ثقافتی سرگرمیوں(cultural activities) سے کوئی پریشانی نہیں ہے، بشرطیکہ مسلمان لغویات اور فضولیات سے دور رہیں۔ اسی کے ساتھ، اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ جشن و جلوسِ میں کسی بھی قسم کی مشرکانہ حرکات و سکنات یا بدعات داخل نہ ہونے پائیں۔