ہندوستانی فلم انڈسٹری کی معروف شخصیات، ریکھا اور امیتابھ بچن کی شمولیت کے ساتھ بنائی گئی ایک فلم میں ریکھا امیتابھ بچن کو نہ صرف بہت چاہتی ہے، بلکہ ان سے شادی کرنے کے متعلق بھی دل سے خواہش مند ہے، مگر اس سلسلہ میں وہ کوشش کے باوجود، امیتابھ بچن کی رضامندی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پارہی ہے۔ دریں اثناء، کسی نے ریکھا سے دریافت کیا کہ فی الوقت ان کا عشق کس مرحلے میں ہے۔
جواب میں ریکھا بڑے اطمینان اور خود اعتمادی کے ساتھ فرماتی ہیں کہ اس سلسلے میں انہیں 50 فیصد کامیابی حاصل ہو چکی ہے۔ چوں کہ پچاس فی صد ایک بڑا نمبر ہے، اس لیے پوچھنے والا مزید تجسس کے ساتھ ریکھا سے ان کی کامیابی کے اس معما(puzzle) کو واضح کرنے کی درخواست کرتا ہے۔ ریکھا جی خوشی خوشی بیان کرتی ہیں کہ وہ خود امیتابھ جی کے ساتھ شادی کرنے کے معاملے میں صد فی صد (%100) رضامند اور تیار ہیں۔
اوپر بیان کئے گئے فلمی واقعہ میں بڑا سبق موجود ہے، نہ صرف افراد(individuals)کی زندگی میں، بلکہ قوموں(nations) کے لیے بھی۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ زندگی کے کسی بھی معاملے میں من چاہا نتیجہ حاصل کرنے کے لیے، روشن مستقبل کی تمنا کرنے والے اشخاص کو عمل کے میدان میں پہلے خود کودنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد ممکن ہے کہ بہت سے دوسرے لوگ بھی آپ کے ہم سفر ہوجائیں اور اس طرح، کثیر افراد پر مشتمل قافلہ آپ کے خوابوں کی منزل کی طرف رواں دواں ہو جائے۔ سیاسی افراد یا دوسرے معزز اشخاص کی طرف دیکھنے سے پہلے، ہمیں اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے خود جوجھنا یا جدوجہد (struggle) کرنی ہوگی۔ خود کی گئی کوشش میں فلمی کہانی کی طرز پر ریکھا میڈم کی طرح انتظار تو ہوسکتا ہے، مگر مایوسی نہیں۔
اللہ تعالیٰ نےجس طرح انسان کو تخلیق کیا ہے اس کی نوعیت یہ ہے کہ دنیا میں انسانوں کو آسانیوں اور دشواریوں دونوں سے سابقہ پیش آئے گا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے تجربات و مشاہدات، فطری قوانین اور قرآنی ہدایات کی روشنی میں اپنی مشکلات کا مقابلہ کریں۔ تشدد اور تخریب کاری جیسے منفی عوامل کو قریب نہ آنے دیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مطمئن رہیں۔ مختلف مسائل کے ضمن میں دوسرے انسانوں کے لیے دل میں بغض و عناد رکھنا اور ان کے تئیں شکایات میں جینا گویا اپنے ہاتھوں سے اپنا گلا گھونٹنا ہے۔
مسلمانوں کو ضرور جاننا چاہیے کہ اپنے ہاتھوں خود کو تباہ کرنا کسی کم عقل قوم یا افراد کا کام تو ہو سکتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ کے مومن( سچے ایمان کے حامل) بندوں کا کسی صورت نہیں، کیوں کہ مومن اللہ کے نور سے دیکھتا ہے(جامع ترمذی حدیث نمبر 3127). اس لیے، مسلمانوں کی سب سے پہلی ذمے داری ہے کہ وہ سچے معنی میں مومن بننے کی نیک نیت، پکا ارادہ اور سنجیدہ کوشش کر یں۔ شروعات اپنے قول و فعل کے مابین پیدا شدہ تضاد کو دور کرنے سے کی جانی چاہیے۔ کیا سچا مومن کہلانے کے لیے صرف مسلمانوں کی فہرست میں شامل ہونا کافی ہے؟ یقیناً، نہیں! مومن ہونے کے لیے ایک مسلمان کے ایمان اور صالح عمل کو اللہ تعالیٰ کے وضع کردہ پاکیزگی کے معیار کا ہونا چاہیے۔ حالات کے موجودہ پس منظر میں، عام طور پر مسلمان ہونے کا مطلب ہوتا ہے اسلام کو اپنے مذہب کے طور پر قبول کرنے والے افراد، لیکن سچا مسلمان وہ ہے جو مومن بھی ہو۔ جب ایسا ہوتا ہے تو پھر دونوں میں کوئی فرق نہیں، یعنی مسلمان مومن ہے اور مومن مسلمان۔
مومن سے مراد وہی عورت یا مرد ہوسکتا ہے جو اللہ رب العالمین اور حضرت محمد رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر حکم کو نہ صرف دل سے سچا تسلیم کرے، بلکہ دیے گئے حکم کے مطابق کسی تذبذب کے بغیر عمل پیرا بھی ہو۔ مثلاً، جہاں صبر کا حکم دیا جائے تو وہاں صرف صبر کیا جائے نہ کہ اندیشے تلاش کئے جائیں کہ اس طرح سامنے والے کو مزید طاقتور ہونے کا موقع مل جائے گا۔ مسلمان ایک لمبی مدت سے اسی طرح کے اندیشوں کا شکار رہے ہیں۔ اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے، مسلمانوں کو اپنے خود ساختہ اندیشوں سے باہر نکلنا ہوگا، مشکلوں میں پوشیدہ آسانیوں کو تلاش کرنا ہوگا اور شکایتی ذہنیت کو ترک کرتے ہوئے سنجیدہ جدوجہد کے ساتھ اپنی ترقی کی جانب جانے والی شاہراہ پر گامزن ہونا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ”ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے“ (الشرح-94: 5-6)۔ اس ربانی خوش خبری کے بعد، اب یہ مسلمانوں کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے مسائل میں آسانیاں دریافت کریں اور اپنی ترقی کی منزل کو یقینی بنائیں۔
انسان نے خود بھی اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں یہ ادراک حاصل کرلیا ہے کہ مسائل دراصل، روشن مستقبل کا دروازہ ہیں۔ بلا شبہ، مسائل کوئی چیز نہیں ہوتے ہیں سوائے اس حقیقت کے کہ وہ فراوانی کے موسم کا انتظار ہیں۔ اس لیے، صبر و شکر کے ساتھ انتظار کی گھڑیوں کو گزارنا چاہیے، اور مسلمانوں کو خود پر یہ واضح کرنے میں مزید تاخیر نہیں کرنی چاہیے کہ ان کے مبینہ مسائل(alleged problems) واستَو میں(in reality)مسائل ہیں بھی یا انہوں نے اپنی کوتاہیوں کو دوسرے لوگوں سے منسوب کر کے اپنے مسائل کا نام دے دیا ہے۔ بالفرض، اگر کچھ مسائل حقیقت میں درپیش ہیں تو مسلمانوں کو جاننا چاہیے کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے بتائے گئے راستے پر چلنے سے حل ہوں گے۔ اس ضمن میں کوئی شارٹ کٹ (shortcut)نہیں ہے۔
اس بات کو مزید واضح کرنے کے لیے کہ اسباب سے وابستہ موجودہ کائنات کس طرح کام کرتی ہے، یہاں روزمرہ کے عام مشاہدات سے حاصل کی گئی ایک اور تصویر پیش کر دینا بھی مناسب رہے گا۔ بازار یا محلوں کے گلی کوچوں میں پھل بیچنے والے(Fruit vendors)اپنے ٹھیلوں کے ساتھ اکثر اوقات، بہت دیر تک اکیلے کھڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ نظارہ تب اچانک قابل دید ہوجاتا ہے جب کوئی گاہک(customer) فروٹ وینڈر کے ساتھ پھلوں سے متعلق بات کرنا شروع کر دیتا ہے۔ ایک آدمی کے آنے کی دیر ہوتی ہے کہ چند لمحات کے اندر ٹھیلے کے ارد گرد بہت سارے لوگ جمع ہو جاتے ہیں اور پھلوں کی باقاعدہ بِکری(sale) کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
کسی بھی میدان میں پہل(initiative) کرنے کا معاملہ یہاں پھل خریدنے والوں کی مثال سے باآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں کسی بھی مہم کی ابتدا کرنا ہمیشہ سے ہی ایک مشکل کام رہا ہے۔ اس لیے، آغاز کرنے والوں کا شمار حوصلہ مند لوگوں میں کیا جاتا ہے۔ 17 ویں صدی عیسوی کے معروف سائنسداں نیوٹن نے سن 1686ء میں حرکت (motion) سے متعلق تین فطری قوانین(The Laws of Nature)وضع کئے تھے۔ اس کڑی میں ان کی پہلی دریافت ’نیوٹن کا
پہلا قانونِ حرکت‘(Newton’s 1st Law of Motion) کے نام سے مشہور ہے۔ مادہ (matter)کے اس فطری اصول کے مطابق کائنات کی ہر چیز اپنی حالتِ موجودہ میں رہنا چاہتی ہے، یعنی جو چیز حرکت میں ہے وہ حرکت میں اور جو چیز رکی ہوئی ہے وہ رکی ہوئی حالت میں رہنا چاہتی ہے جب تک کہ اس پر کوئی غیر متوازن(non balanced)قوت(force)
اثر انداز نہ ہوجائے۔ اس کو ’جڑتا‘ کا قانون(The Law of Inertia)بھی کہا جاتا ہے۔
یہاں پیش کیا گیا فلمی واقعہ اور نیوٹن کے وضع کردہ اصول کی روشنی میں پھل فروخت کرنے والے کا قصہ زیر نظر مضمون کے ساتھ کافی گہری وابستگی رکھتے ہیں۔ یہاں یہ بنیادی بات واضح ہوجاتی ہے کہ خیر کے بڑے کام ہمیشہ یکطرفہ ارادہ اور کوشش سے ہی شروع کئے جا سکتے ہیں اور ان کو سنجیدہ جدوجہد کے بغیر جاری نہیں رکھا جاسکتا۔ اللہ تعالیٰ بھی اپنی مخلوق کے تئیں یکطرفہ طور پر رحمٰن اور رحیم ہے۔ اس کا مہربان اور نہایت رحم والا ہونا اس بات پر منحصر نہیں ہے کہ اس کے بندے پہلے اس کی عبادت یا حمد و ثناء کریں۔ اسی طرح حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا رحمت اللعالمین ہونا بھی رحمت کا یکطرفہ معاملہ ہے۔ حالاں کہ صرف زیادتی کے برابر بدلہ لینے کی اسلام اجازت دیتا ہے، مگر بدلہ لینے کے بجائے معاف کر دینے کو افضل سمجھتا ہے، گویا یکطرفہ خیر خواہی اسلام کا اصول ہے۔ اس لیے، خیر خواہی کی صفت مسلمانوں کی بنیادی خوبی ہونی چاہیے، اور اس کا اظہار ان کے برتاؤ(behaviour) میں ہمیشہ نمایاں رہنا چاہیے۔ مسلمانوں کے اوصاف دنیا بھر کے انسانوں کے لیے یہ تعارف بن جائیں کہ اللہ رب العالمین اور اس کے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نوع انسانی کے لیے نہایت شفیق اور مہربان ہیں۔
دوسرے انسانوں کے ساتھ مسلمانوں کا حسن سلوک اور خیر خواہی کا برتاؤ نہ صرف انہیں مسائل سے محفوظ رکھے گا، بلکہ دعوت الی اللہ میں بھی معاون ثابت ہوگا۔ اس میں شک نہیں کہ اس مضمون کے عنوان میں مسلمانوں کے مسائل کا حل جن عوامل کے ساتھ وابستہ کیا گیا ہے، جڑتا کے فطری قانون کے پیش نظر، ان پر عمل کرنا خود ایک بڑا چیلینج (challenge) ہے۔ لیکن اس چیلینج کو قبول کئے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ نیوٹن نے حرکت سے متعلق اپنے قوانین مادہے کے مطالعہ کے بعد وضع کئے تھے، مگر تجربہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ جڑتا کا اصول اشیاء پر ہی نہیں، بلکہ انسان کے ارادہ و اختیار پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ گزشتہ پچہتر سالوں کے درمیان علم و فکر اور عمل کے کم و بیش ایک ہی خط(script) پر زندگی بسر کرتے رہنے کی وجہ سے مسلم معاشرے میں ردعمل، انتقام، منافرت اور دشمنی جیسے جذبات کی جڑوں نے پختگی حاصل کرلی ہے۔ پختگی کی اس کیفیت کو توڑ نا نہ صرف ایک چیلینج ہے، بلکہ ایسا کرنے کے لیے بڑا حوصلہ بھی درکار ہے۔
موجودہ دور کے آتے آتے مسلم قوم اپنے کچھ معاملات میں اتنی سخت جان ہو گئی نظر آتی ہے کہ وہ کسی معاملہ میں نظر ثانی کے لیے بھی تیار نہیں۔ اپنے معاملات میں ہمیشہ نظر ثانی کے لیے تیار رہنا اور ناگزیر اصلاحات کرتے رہنا زندہ قوموں کی نشانی ہوتی ہے۔ جائز و ناجائز کے فرق اور ضروری اور غیر ضروری کے امتیاز سے قطع نظر، موجودہ دور کے مسلمان گویا اپنے معاشرتی رسم و رواج پر عمل کرنا فرض کے دائرے میں ضروری سمجھتے ہیں۔ شادی بیاہ سے وابستہ مہنگی مہنگی رسمیں، جہیز کی ہمہ جہتی لعنتیں، برات یا بارات پر ہونے والے بڑے بڑے اخراجات، دلہن کے سسرال والوں کی الگ الگ مواقع پر ضیافتیں اور اسی نوعیت کے تمام دوسرے رواج گویا مسلم عوام کی ریڑھ کی ہڈی(spinal cord)بن گئے ہیں جس کے بغیر ان کا سر اونچا نہیں رہ سکتا۔ بڑی حد تک بیہودہ، ان رسم و رواج نے مسلم عوام کے مسائل کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ ان رسومات کے سبب بچوں کی اعلا تعلیم سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے اور نتیجتاً مسلم عوام کا پسماندگی کی کیفیت سے آزادی حاصل کرنا مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔
اگر مسلم سماج شادی کے نام پر صرف نکاح مسنونہ، مہر اور دعوتِ ولیمہ کے اسلامی اطوار پر ہونے والے اخراجات تک خود کو محدود کرنے کا حوصلہ پیدا کرلے تو مسلمانوں کے بیشتر مسائل کسی خارجہ امداد اور تعاون کے بغیر حل ہو سکتے ہیں۔ پھر پٹری سے اتر چکے ان کے بچوں کی تعلیم اور گھر کے معاشی معاملات واپس پٹری پر آسکتے ہیں۔ ہر صاحبِ شعور و بصیرت کی مشترکہ کوششوں سے اگر ہمارا معاشرہ اپنے معاملات میں شامل خرافات کو ترک کرنے، اپنے طرز عمل یا برتاؤ (behaviour) میں حسن سلوک اور یکطرفہ خیر خواہی کے چشمے جاری کرنے میں کام یاب ہو جائے، تو مجھے اپنے اس مضمون کی تصنیف سے خوشی کی وہی کیفیت حاصل ہوگی جو ایک سائنسداں کو اپنی کسی دریافت (Discovery) سے ہوتی ہے۔ معاشرے کی عملی اور نظریاتی جڑتا کو اکھاڑ پھینکنے کا یہ عمل گویا موجودہ مسلم نوجوانوں اور آنے والی نئی نسلوں کے لیے اتنی بڑی مقدار میں روشنی(علم) اور توانائی(خوشحالی) فراہم کرے گا جیسی طاقت(energy)اور روشنی(light) ایٹم کے ٹوٹنے سے پیدا ہوتی ہے۔
مسلمانوں کی مشکلات یا ان کے مسائل کے کئی پہلو ہیں۔ اگر کچھ مسائل غیر مسلموں کی نسبت سے تسلیم کئے جا ئیں، تو بھی مسلمانوں کے بیشتر مسائل خود ان کی اپنی وجہ سے ہیں۔ مزید غور و خوض سے واضح ہو سکتا ہے کہ غیر مسلموں کی نسبت سے بیان کئے جانے والے مسائل بھی دراصل، مسلمانوں کے اپنے عمل کا ردعمل ہیں۔ یہ ادراک ہوتے ہی کہ مسلمانوں کے مسائل، ان کے معاملات میں سوجھ بوجھ کی کمی اور عمل میں جلد بازی کا نتیجہ ہیں، انہیں حل کرنے کے راستے بھی نظر آنے لگیں گے۔ دوسری قوموں کی طرح مسلمانوں میں بھی عوام اور خواص دونوں طبقے موجود ہیں۔ ہم مذہب ہونے کے باوجود، مسلمانوں کا طبقہ خواص گویا خود کو الگ معاشرہ تصور کر لیتا ہے۔ اس طرح خواص و عوام شمال اور جنوب بن کر رہ جاتے ہیں۔ آپس میں بامعنی اختلاط مفقود ہونے لگتا ہے۔ یہ صورت حال عام مسلمانوں کے مسائل کو حل کرنے کی جگہ ان کو مزید الجھانے کا سبب بن جاتی ہے۔
چوں کہ اللہ تعالیٰ نے موجودہ انسانی دنیا امتحانی مصلحتوں کے نقشہ پر بنائی ہے، اس لیے یہاں لوگوں کا کمزور اور طاقتور ہونے کے ساتھ ساتھ، غریب اور دولت مند ہونا بھی ایک فطری امر ہے۔ اسلامی تعلیمات میں فراہم کی گئیں واضح ہدایات اور تاکید کے مطابق اگر کسی کے پاس دولت کی ریل پیل ہے تو اس کو جاننا چاہیے کہ اس کی دولت میں اپنے خاندان کے ساتھ ساتھ، ان لوگوں کا بھی بڑا حصہ ہے جن کے پاس دولت نہیں ہے یا بہت کم ہے۔ دولت کی طرح دوسری تمام نعمتوں کا بھی یہی معاملہ ہے۔ ان خوش حال اور دولت مند مسلمانوں کو مسلسل اور مختلف صورتوں میں نعمتیں عطا کرنے والے اپنے پروردگار کے غضب ناک ہونے کے اندیشہ سے لرز جانا چاہیے جن کے پڑوسی، محلہ یا شہر والے کچھ لوگ اپنی زندگی جینے کے لیے درکار بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہیں۔ مدد فراہم کرنے کی ترجیحات میں پہلا مقام بچوں کی بارہ سالہ بنیادی تعلیم کے حصول کو حاصل ہونا چاہیے۔ اسی کے ساتھ، علمی طور پر لائق و فائق ان افراد کی پرواہ کی جانی چاہیے جو خصوصی طور پر چھوٹے بچوں کی تعلیم و تربیت سے وابستہ ہیں، مگر خود ان کے اپنے معاشی حالات کو اچھا نہیں کہا جا سکتا۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مسلم معاشرے کو علم سے مزین اور خوش حال بنائے رکھنے کے ضمن میں دولت مند افراد بڑا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ساتھ ہی، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بڑے پیمانے پر اور مختلف صورتوں میں نہ صرف مسلمانوں کے لیے امداد فراہم کرتی ہے، بلکہ نوع انسانی کی فلاح و بہبود کے لیے بھی بڑے بڑے کام انجام دے رہی ہے۔ جن خوش نصیب اشخاص نے دنیا چلانے کی بابت اللہ رب العالمین کے منصوبے (Planning)کو واضح طور پر سمجھ لیا ہے، وہ انسانوں کی ہمہ جہتی مدد سے بے نیاز نہیں رہ سکتے۔ اس سب کے باوجود وقت کے ساتھ ساتھ اور مخلف عوامل کے زیر اثر بلند اور صحت مند اخلاقیات کی حامل قوموں کے اخلاق و کردار کے اندر بھی گراوٹ پیدا ہونے لگتی ہے۔ ترقی یافتہ اور زوال یافتہ قوم ہونے کا یہی مطلب ہے۔ بلا شبہ، قوموں کے عروج و زوال کو متعین کرنے میں علم و اخلاق کی پاکیزگی بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔علم اور اخلاق کی پاکیزگی پر حرف آنا گویا قوم کے زوال کی ضمانت ہے۔ اس لیے ہر شخص کے لیے نہایت ضروری ہے کہ وہ اپنی شخصیت کو پاکیزہ بنائے رکھنے کے لیے ہر ممکن اور مسلسل کوشش کرتا رہے۔
کسی قوم کا عروج کے مقام پر جا بیٹھنا یا تنزلی کے اندھیروں میں بھٹکنے لیے مجبور ہوجانا، اسباب کی موجودہ دنیا میں بے سبب نہیں ہوتا ہے۔ حالات کے درمیان مختلف اسباب کے کام کرنے کی نوعیت کا ایک سنجیدہ اور باقاعدہ مطالعہ الگ سے کیا جاسکتا ہے۔ اسباب کی حقیقت کو کسی شاعر نے اپنے ایک شعر میں بہت خوبی کے ساتھ ادا کیا ہے:
”بے سبب ہوتی نہیں رسوائیاں،
کچھ حقیقت تھی جو افسانے بنے“.
غور سے دیکھا جائے تو ’علم کی صدی‘ اکیسویں صدی عیسوی کا تقریباً ایک چوتھائی عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ملک کے شہریوں کی بہت بڑی تعداد ابھی بھی چند چیزوں کو ہی انسانی ترقی کا پیمانہ سمجھتی ہے۔ ان سب کے درمیان، آج اول درجہ کا مقام دولت کو حاصل ہے۔ واقعی ضرورت اور صالح مقاصد سے قطع نظر، لوگ زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کی جانب دوڑ لگاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ تعجب کی بات ہے کہ اس بھیڑ چال(herd mentality) میں مسلمان بھی کوئی استثنائی مثال (exceptional example)پیش نہیں کر رہے ہیں۔ جہاں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے دولت کمانے کی تگ ودو گویا اللہ رب العالمین کا فضل تلاش کرنا ہے (الجمعہ-62: 10)، وہیں صرف دولت جمع کرنے کی خاطر دولت پیدا کرنا کوئی مستحسن (commendable) فعل نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ایسا کرنے کے مضر اثرات سے متنبہ کیا ہے (التکاثر-102: 1-2)۔ مزید وضاحت کے طور پر، اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ دولت کی گردش معاشرے کے مالدار لوگوں میں محدود ہوکر نہ رہ جائے۔ دولت کی سہی نوعیت یہ ہے کہ اس کی گردش ہر طبقہ کے درمیان رہنی چاہیے(الحشر-59: 7)۔
بلا شبہ، خوش حال اور با معنی زندگی بسر کر نے کے لیے جائز طریقہ سے دولت کمانا ایک اچھا فعل ہے، اور اس سے بھی اچھا اور مستحسن فعل یہ ہے کہ کمائی ہوئی دولت کو مبارک اور خیر کے کاموں میں خرچ کر دیا جائے؛ جب کہ کسی مبارک اور واضح مقصد کے بغیر دولت کو ذخیرہ کرنا صرف برا ہی نہیں، بلکہ ناگہانی (unexpected) مشکلات اور آفات کو دعوت دینے کے مترادف بھی ہے۔ انسانوں کے درمیان، دولت کی کشش کا یہ عالم ہے، گویا امیر و غریب کے امتیاز کے بغیر ہر کوئی اپنی اپنی حیثیت میں اس مٓہوِش کا دیوانہ ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آج کا انسان ’دولت اور پھر اقتدار‘ یا ’اقتدار اور پھر دولت‘ کے کبھی نہ اترنے والے گول گول نشے میں اتنا مدہوش ہو گیا ہے کہ دولت اور اقتدار سے وابستہ گرداب یا بھنور(whirlpool) کی حقیقت بھی اس کی چشم و بصیرت دونوں سے اوجھل ہو کر رہ گئی ہے۔
کرہ ارض (The Earth)پر آباد کی گئی دنیا سے وابستہ خالقِ کائنات کے قوانین سے آگاہی ہونے کی وجہ سے، مسلمانوں کے علماء اور دانشور حضرات کی یہ بڑی ذمے داری ہے کہ وہ دولت کے انبار سے مغلوب افراد کو نصیحت کریں کہ دولت جمع کرنا دولت کمانے کا مقصد نہیں ہے اور رغبت دلائیں کہ دولت معاشرے کی فلاح و بہبود کی خاطر، علم نافع کے حصول اور صالح مقاصد کو حاصل کرنے کی جدوجہد میں خرچ کی جائے۔ اپنے مقام ومرتبہ کے اعتبار سے اور مخلص ارادوں کے ساتھ نیک نصیحت کرنا اکثر اوقات سوئی ہوئی انسانی غیرت کو جگانے میں معاون ثابت ہوتا ہے، اور بہت سے مسائل کو حل کرنے کے لیے واضح رہنمائی فراہم کرنے کا ذریعہ بھی بن جاتا ہے۔
نصیحت اور رغبت کے ذیل میں یہاں ایک سچا قصہ بیان کر دینا مناسب رہے گا۔ اسٹاک مارکیٹ (Stock Market) کے بِگ بُل (Big Bull) کے نام سے معروف راکیش جھن جھن والا کا 14 اگست 2022ء(اتوار) کو انتقال ہوا ہے۔ اپنی موت کے وقت وہ تقریباً پینتالیس- پچاس ہزار کروڑ روپے کی دولت کے مالک تھے۔ انہوں نے اپنے والد صاحب کی نصیحت کا ایک واقعہ کچھ یوں بیان کیا ہے: ”میرے والد محترم نے بہت خوشی کا اظہار کیا جب انہیں معلوم ہوا کہ ان کا بیٹا دنیا کے ’ارب پتی‘ لوگوں کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے“. لیکن اسی کے ساتھ انہوں نے مزید یہ بھی کہا: ”کیا تمہیں اس بات پر شرمندگی محسوس نہیں ہوتی ہے کہ اربوں ڈالر ہونے کے باوجود تم چند ڈالر بھی خیرات (charity) نہیں کرسکتے؟ جائو، ایک بالٹی پانی میں ڈوب کر مر جائو“. مسٹر راکیش پر اپنے باپ کی اس معنی خیز نصیحت کا یہ اثر ہوا کہ وہ تبھی سے اپنی آمدنی کی چوتھائی(%25) دولت خیرات کرنے لگے۔
شاید موجودہ مسلم معاشرے کی تعلیم و تربیت میں انسانی درد محسوس نہ کرنے کی کمزوری اور اسلام کے عملی احکام- ”اَمْرِ بالمَعْروف وَ نَہی عن المُنْکر“ کے عمل میں کوتاہی کی وجہ سے ہی ذیل میں نقل کیا گیا دردناک واقعہ وقوع پذیر ہو سکتا ہے۔ ہندوستان اردو ٹائمز (https://hindustanurdutimes.com) نے اپنی 28 اگست 2022ء کی اشاعت میں ریاست اترپردیش کے سنبھل شہر سے متعلق اس دردناک واقعہ کی خبر شائع کی ہے۔
سنبھل شہر ہندوستان کا ایک قدیم تاریخی شہر ہے۔ تاریخ کے قبل مسیح دور میں سَمراٹ اشوک (Ashoka,The Great)کی حکومت کے زمانے میں بھی سنبھل شہر موجود تھا۔ ماشاءاللہ، آج 21 ویں صدی عیسوی میں بھی یہ پوری طرح شاد و آباد ہے۔ ایک لمبے عرصے تک سنبھل ضلع مرادآباد کی تحصیل رہی ہے، لیکن سنہ 2011 عیسوی سے سنبھل خود اترپردیش کے اضلاع کی فہرست میں شامل ہے۔
میرا احساس ہے کہ سنبھل ہمیشہ سے اسلام کے علماء اور مہذب لوگوں کی ایک خوش حال بستی رہی ہے۔ آج بھی اس شہر کے بیشتر مسلمان کھانڈ (unrefined sugar)/چینی اور پیپرمنٹ/ مینتھول(menthol)کے کاروبار کے توسط سے کافی خوش حال اور دولت مند ہیں۔ سنبھل شہر میں”دیپا سرائے“ کے نام سے معروف مسلم بستی (محلہ) کو ایک انفرادی حیثیت حاصل ہے۔ یہی محلہ شہر کے امیر ترین مسلمانوں کی آماج گاہ ہے۔
سنبھل کے مذکورہ پس منظر میں مندرجہ ذیل واقعہ نہ صرف دردناک ہے، بلکہ مسلمانوں، خاص طور پر سنبھل کے مسلمانوں کے لیے شرمندگی کا باعث بھی ہے۔
خبر کا خلاصہ ہے کہ’مولانا صادق ندوی سنبھلی نے مراد آباد ریلوے اسٹیشن پر ریل کے سامنے کود کر اپنی جان دے دی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون‘.
مزید معلومات کے لیے، اخبار کی تحریر پیش خدمت ہے:
”مولانا محمد صادق صاحب ندوی، سابق استاذ مدرسہ انجمن سنبھل نے مرادآباد کے اسٹیشن پر ٹرین کے نیچے اپنے آپ کو ہلاک کر لیا۔ مولانا صادق ندوی سنبھلی ہیں، بہت ہی قابل استاذ، انگلش کے ماہر اور اپنے زمانے میں ندوہ میں اول پوزیشن حاصل کرنے والی شخصیت کی مختصر روداد یہ ہے کہ وہ کسی مدرسہ میں پڑھا رہے تھے، مدرسے والوں نے بنا کسی عذر کے ان کو نکال دیا۔ اس کے بعد ایک مسجد میں امامت کرنے لگے تو آئےدن جاہل مقتدیوں کی نکتہ چینی کی وجہ سے امامت بھی چھوڑنی پڑی، اس کے بعد مولانا نے رکشہ چلایا اور فاقے کے حالات بن گئے۔ اور اس کے علاوہ گھر کے حالات نے آپ کو یہ قدم اٹھانے پر مجبور کر دیا کہ 27 اگست 2022ء کو مراد آباد میں ریلوے اسٹیشن پر جا کر ریل کے سامنے کود کر اپنی زندگی کو ختم کر دیا۔ اللہ تعالی مغفرت فرمائے۔ آمین“.
سنبھل ہی نہیں، ملک کے طول و عرض میں آباد سبھی خاص و عام مسلم حضرات کو اس پُر درد واقعہ سے نصیحت اخذ کرتے ہوئے کچھ ایسا بندوبست ضرور کرنا چاہیے کہ آئندہ کسی عالم یا علم کی راہ کے مسافر حضرات کی زندگی اتنی مشکلات سے دوچار نہ ہو۔ حیرت ہوتی ہے یہ سوچ کر کہ خود سنبھل کا باشندہ اور سنبھل کے ’انجمن‘ جیسے معروف مدرسہ سے وابستہ رہ چکا ایک ندوی عالم رکشہ چلاتے وقت چھوٹے بڑے کسی بھی شخص کی پہچان میں نہیں آیا, تاکہ بستی کے معزز افراد مولانا صادق صاحب کے حالات کا جائزہ لے کر کوئی حل فراہم کردیتے۔ یقیناً، اب مولانا مرحوم کے پریوار (family) کی فکر کی جانی چاہیے۔ اس واقعہ کو بھی بلا تردد مسلمانوں کے اندرونی مسائل میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ اس قصہ کے ذیل میں، ہر دانش مند شخص باآسانی اسلام کی اُس تعلیم کی حکمت اور معنویت سمجھ سکتا ہے جس کی رو سے ”ہر گھر کے ارد گرد چالیس گھروں تک کا دائرہ اس گھر والے کا پڑوس ہوتا ہے“۔
مسلمانوں کے علمی حلقوں میں، اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے یہ قول بھی شائع و ذائع ہے کہ ”کسی محلے کے لوگوں میں اللہ کے نزدیک سب سے افضل اور بہتر وہ شخص ہے جو اپنے پڑوسیوں کے حق میں بہتر ہو“۔ مسلمانوں میں سوئی ہوئی غیرت کو جگانے کی غرض سے یہ بات عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ اپنے مسائل کا ادراک اور ان کو حل کرنے کی بابت انفرادی اور اجتماعی سطح پر پلاننگ اور سنجیدہ جدوجہد کے بغیر معاشرے کی پریشانیوں کا حل ممکن نہیں ہے۔ سہی منصوبہ بندی وہی ہوسکتی ہے جس میں درست ترجیحات قائم کی جائیں۔ اتنے سخت تجربات کے بعد بھی مسلم معاشرے میں حصول علم کو ترجیحات کی فہرست میں پہلا مقام حاصل نہیں ہے۔ موجودہ دور کے مسلمان متفقہ طور پر، مسجد تعمیر کرنے کو آخرت کی کام یابی سے منسوب کرتے ہیں، مگر اسکول/کالج کی تعمیر میں انہیں ایسا کوئی اخروی فائدہ نظر نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ صرف محلہ والوں کے تعاون سے ایک عالی شان مسجد چند دنوں کے اندر بن کر تیار ہو جاتی ہے، جب کہ معیاری درسگاہیں تعمیر کرنا ان کے خواب و خیال میں بھی نہیں ہوتا۔
یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ عمومی طور پر سبھی گھروں کے پڑوسی افراد، خاص طور پر خواتین متعلقہ گھر کی بہو/بہوئوں کی عادات و اطوار اور ان کے ماضی کی کہانیوں کے بارے میں باریک بینی کے ساتھ واقف ہوتی ہیں یا ہونا چاہتی ہیں۔ اسی طرح، گھر کے بیٹے، بیٹیوں کی معمولی قسم کی باتوں کو جو ان کی اپنی سوچ اور نظریات سے مختلف ہوتی ہیں، بے راہ روی کا نام دیے کر گھر اور باہر خوب اچھالا جاتا ہے، اس سچائی کا نوٹس لیے بغیر کہ مذکورہ افعال شیطانی اطوار ہیں۔ اس معاملے میں عجیب بات یہ ہے کہ وہی عورت اور مرد جو پڑوسی کی منفی باتوں کی تشہیر میں پیش پیش نظر آتے ہیں، خود یہ جانے بغیر مطمئن رہتے ہیں کہ پڑوسی کی چھوٹی بیٹی یا بیٹا پچھلے کئی ماہ سے فیس ادا نہ ہونے کی وجہ سے اسکول نہیں جا پا رہا ہے۔ اسی یا دوسرے گھر میں ایک یا دو بیٹیوں کی شادی میں اس لیے تاخیر ہو رہی ہے کہ ان کے پاس ضروری اخراجات کا بندوبست نہیں ہے، یا گھر کا اکلوتا کمانے والا ایک لمبے عرصے سے بیمار ہے۔
مسلمانوں کے مذکورہ اطوار و افعال ان کے معاشرے کی زیب و زینت تو نہیں بڑھاتے، البتہ ملک کے اندر اور باہر اچھے برے انسانوں کی تفریق کے بغیر سارے مسلمانوں کی رسوائی کا سامان ضرور فراہم کرتے رہتے ہیں۔ غور و خوض کیا جائے تو مسلمانوں کی موجودہ معاشرت صرف رسوائی کا ہی سبب نہیں ہے، بلکہ ان کے جملہ مسائل کی بنیاد (foundation) بھی یہی ہے، گویا ہندوستان کے ایک مشہور بابا کے الفاظ میں ’کرپا‘(Allah’s Mercy) یہیں اٹکی ہوئی ہے۔ اپنی شیطانی روش کو اسلامی روشنی سے منور کئے بغیر، مسلمان دنیا میں روشن مستقبل کی امید نہیں کرسکتے اور آخرت کا معاملہ اللہ رب العزت کے رحم و کرم پر منحصر ہے۔ مسلمانوں کو فوراً سے پیش تر اپنے شیطانی طور طریقوں کو عزم و حوصلہ کے ساتھ ترک کر دینا چاہیے اور اپنے پروردگار سے سچی توبہ کرنی چاہیے۔ ان شاء اللہ، توبہ اور رجوع کے بعد مسلمانوں کو نصرتِ خداوندی پھر سے حاصل ہونے لگے گی۔ اللہ تعالیٰ کے راضی ہونے کے بعد دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کے معاملات بھی سنور جائیں گے۔
اپنے وطن ہندوستان کو آزادی حاصل ہونے کے بعد شروعاتی دور کے بدلے ہوئے حالات میں مسلمانوں کے بچوں کی تعلیم اور خاندانوں کے اقتصادی معاملات کافی کمزور پڑ گئے تھے۔ جہاں تعلیمی کمزوری نے اخلاقیات کو متاثر کیا، تو وہیں معاشی پریشانیوں نے معاشرتی خصائص کو پامال ہونے میں مدد کی۔ مسلمانوں کے پاس جو مہذب اطوار اور اخلاقی اقدار ایک لمبی مدت سے ان کا قیمتی سرمایہ ہوا کرتی تھیں، آہستہ آہستہ ان سے جدا ہونے لگیں۔ جھوٹ جو اسلام کی نظر میں نہایت قبیح چیز ہے، مسلمانوں میں داخل ہونے لگا۔ جھوٹ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ”جھوٹ جس نے بھی گھڑا، وہ نا مراد ہوا“(طحہ-20: 61)۔ جھوٹ کے راستے شیطان کا کاروبار آسان ہو گیا، اور شیطانی چالاکیاں، ہوشیاریاں اور مکر و فریب مسلمانوں کے لیے اجنبی اشیاء نہیں رہیں۔ نتیجتاً، مسلم معاشرہ’پسماندگی‘(backwardness) سے ہمکنار ہوتا ہوا چلا گیا۔
قرآن مجید میں تاکید کی گئی ہے کہ ”اے ایمان والو، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے نذدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں“ (الصف-61: 2-3)۔
بلا شبہ، موجودہ دور کے مسلمان ایک زوال یافتہ قوم ہیں۔ بہت سی کمزوریوں اور برائیوں کے ساتھ ساتھ، زوال یافتہ افراد میں یہ حوصلہ بھی باقی نہیں رہتا ہے کہ وہ جو کہیں وہی کریں، اور جو کریں وہی کہیں، گویا کہ ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک طرف اپنے مومن ہونے کا اقرار کرتے ہیں تو وہیں دوسری طرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی میں بھی مسلسل مبتلا رہتے ہیں۔ پیش گئی حقیقت کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر مسلمان اپنے اندر پیدا شدہ برائیوں اور کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے مضبوط ارادہ اور سنجیدہ کوشش کریں تو قوم کی کیفیتِ زوال بھی زائل ہو سکتی ہے۔ شروعات ہمارے بزرگ اور نوجوان اشخاص میں گھر کر گئے’قول و فعل کے تضاد‘(contradiction
between what we say or do and what we do or say.)
کو مٹانے سے کرنی ہوگی۔ دراصل، قول و فعل کا تضاد ہمیں فطری اصولوں (natural laws) سے غیر متعلق کردیتا ہے اور اس طرح ہم علمی، معاشی اور دوسری تمام طرح کی پسماندگی کے اندھیروں میں کسی واضح سمت کے بغیر بھٹکنے لگتے ہیں۔ اپنی شخصیت میں شامل تضادات سے پاکیزگی حاصل کرنے کے ساتھ، ہماری گاڑی فطرت کی پٹری پر واپس آسکتی ہے اور پھر ہمارے لیے دوبارہ ترقی کی راہ میں گامزن ہوجانا آسان ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ مدد فرمائے۔
واضح رہے کہ زیر نظر مضمون میں، مسلم معاشرہ میں مسلم کا مطلب عام مسلمان، یعنی عوام ہیں، اور مسلمانوں کے مسائل کا مطلب عام مسلمانوں یا دوسرے الفاظ میں مسلم عوام کے مسائل ہیں۔ جہاں تک مسلم اشرافیہ (elite) کا تعلق ہے تو مسائل ان کو بھی درپیش ہوتے رہے ہیں اور آج بھی ہیں، مگر پسماندگی جیسی حالت ان سے ہزاروں میل دور ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی واضح رہے کہ استثنیات (exceptions)عوام و خواص دونوں طبقوں میں پائے جا سکتے ہیں۔ سبھی عوام و خواص اور عورت و مرد میں عمومی خصلت و خصائص کے علاوہ بہت سارے استثنیات بھی ہوتے ہیں۔ اس لیے، سبھی قسم کی مستثنیات سے قطع نظر، مسلمانوں کے مسلمانوں نیز غیر مسلموں کے تعلق سے پیدا شدہ مسائل کا حل تلاش کرنے سے پہلے ان کی نوعیت اور نزاکت کو سمجھنا نہایت ضروری ہے، اور پھر حاصل شدہ روشنی میں، پورے غور و فکر کے بعد کوئی اقدام کرنا چاہیے۔
تحریکِ آزادی کی طویل جدوجہد کے بعد سنہ 1947عیسوی میں ہندوستان کو انگریزوں کی دو سو سالہ غلامی سے آزادی حاصل ہوئی۔ آزاد ہندوستان نے طرز حکومت کے طور پر جمہوریت (Democracy)کا انتخاب کیا۔
کسی بھی جمہوری ملک میں، فطری طور پر سیاسی مواقع(Political opportunities)کا میدان وسیع ہو جاتا ہے اور لوگوں میں اپنی استعداد کے مطابق سیاست(Politics) کے تئیں دلکشی بڑھ جاتی ہے۔ اسی مطابقت میں، ہندوستانی مسلمانوں کے”بڑے“ لوگوں میں ملکی سیاست یا بالفاظ دیگر ملک کے اقتدار میں حصہ لینے میں دلچسپی پیدا ہو گئی۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے، کیوں کہ انسان کو زندگی میں فوقیت، بڑائی، برتری، بلندی اور شان و شوکت حاصل کرنے کے لیے رغبت دلانے والے فطری داعیات سے مزین کر کے پیدا کیا گیا ہے۔ لیکن قوم کی تعمیر و ترقی کے پیش نظر ترجیحات قائم کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ قوم کے لائق و فائق افراد کی سیاست میں دلچسپی نے عام مسلمانوں کی زندگی کو ایک ایسے مقام پر لاکر کھڑا کر دیا جہاں سے ان کی بے چارگی میں مزید اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔ چوں کہ سیاست کے میدان میں کام کرنا خود ایک فل ٹائم جاب(Full time job) ہے، اس لیے اعلا تعلیم یافتہ اور دولت مند مسلمانوں سے بقیہ مسلمانوں کو ان کے تعلیمی اور معاشی معاملات کو درست کرنے میں جتنے بڑے پیمانے پر مدد اور تعاون حاصل ہوسکتا تھا وہ نہیں ہوا۔ اس کے برعکس، مسلم عوام اشرافیہ کی سیاست کا خام مال(raw material) بن کر رہ گئے۔ قائد قسم کے افراد سیاست کی نوعیت، نزاکت اور اس کے حدود سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں، جب کہ عوام کا معاملہ عام طور پر اس سے مختلف ہوتا ہے۔ عوام عموماً مخالف گروہ یا افراد کے ساتھ نفرت اور دشمنی کے زاویہ سے معاملہ کرنے کو ہی سیاست سمجھتے ہیں۔
خام مال یعنی الیکشن وغیرہ سے وابستہ سرگرمیاں، جلسے جلوس اور نارے بازی کرنے والی بھیڑ۔ ایک بار بھیڑ(crowd) کا حصہ بن کر سڑکوں پر آجانے کے بعد، انسان اپنے گھرکے معاملات کو درست کرنے کے لیے ضروری جدوجہد سے دور ہوجانے کے ساتھ ساتھ، اپنی اچھی پہچان (good image) سے بھی محروم ہونے لگتا ہے۔ گروہ بازی، منافرت اور دشمنی پیدا کرنے والی سیاست کے سبب عام مسلمان مزید کئی بنیادی چیزوں سے محروم ہو کر رہ گئے ہیں۔ غیر جانبدارانہ سوچ، اخلاق وکردار کی پاکیزگی اور پختگی، خوش حالی اور کام یاب کاروبار کے عوامل، علم و ہنر اور نیک نامی( noble image) میں پچھڑنے کے ساتھ ساتھ ہم وطنوں کے ساتھ ان کے قدیم رشتوں کی مٹھاس بھی کڑواہٹ میں بدلنے لگی۔ یہ معاشرتی کڑواہٹ مسلمانوں کے ہر شعبہ پر اثر انداز ہوتی ہوئی دیکھی جا سکتی ہے۔ دراصل، یہی صورت حال مسلمانوں کے مسائل ہیں۔ اخبارات و رسائل کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ پیدا شدہ حالات کے دباؤ میں مسلم سیاست بھی مایوسی کی کیفیت سے دوچار ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی نظر آتا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان طویل مدت تک جاری رہی منفی سیاست کے ماحول نے حالات کو بد صورت اور بدبودار بنا دیا ہے۔ حالات کو واپس خوب صورت اور خوشبودار بنانے کے لیے اب صرف ایک ہی صورت باقی ہے، اور وہ ہے نیت اور ارادہ کی پاکیزگی کے ساتھ ”یکطرفہ خیر خواہی اور حسن سلوک“ کے راستہ پر گامزن ہوجانا۔
نظامِ فطرت کے تحت، جس طرح ہائڈروجن(H)اپنے دو ایٹم اور آکسیجن(O)اپنے ایک ایٹم کے ساتھ مل کر ایک نئی قیمتی شے- پانی(H2O) کو وجود بخشتے ہیں، اسی طرح دنیا میں خدا کے اذن سے بہت سے دولت مند اور بڑا تصور کئے جانے والے لوگوں کو بلندی کے مینار سے اتار کر ان کی جگہ پستی میں زندگی بسر کر رہے کچھہ دوسرے افراد کو پہنچا دیا جاتا ہے۔ امتحانی مصلحت کے تحت بنائی گئی اس دنیا میں اس طرح کے تغیرات نہ تو بے سبب ہوتے ہیں اور نہ ہی بے مقصد۔ کائنات کی تخلیق میں پنہاں اصولوں کے توسط سے عروج و زوال کا یہ سلسلہ مسلسل جاری رہتا ہے۔ اب اگر کوئی شخص ’عوام‘ کی مدار (orbit)سے نکل کر’اشرافیہ‘ کی مدار میں داخل ہو جانے کے بعد اس سچائی کا اعتراف کر سکتا ہے کہ وہ بھی کبھی عوام کا حصہ رہ چکا ہے، تو یقیناً، اس فرد سے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ عوام کے مسائل کو حل کرنے کی سمت میں ضرور کوئی مثبت (Positive)اور بڑا کردار ادا کرے گا۔ وقتاً فوقتاً، سماج کے اندر یہ مشاہدات ہوتے رہتے ہیں کہ اپنی مفلسی سے نجات پاکر دولت و مرتبہ اور وقار و اقتدار حاصل ہوجانے کے بعد بیشتر لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ ان کو غریب عوام کی مدد کرنا تو درکنار ان سے بات کرنا بھی معیوب نظر آنے لگتا ہے۔ جب مسلمانوں کا خود مسلمانوں کے تئیں یہ رویہ دیکھا جاسکتا ہے تو جن افراد کو لوگ غیر سمجھنے کی حماقت کرتے رہتے ہیں ان کے متعلق کسی بھی قسم کی کوئی شکایت کیسے جائز ہو سکتی ہے۔حکمت و دانائی سے مشرف انسان کے لیے یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ شکایتوں میں جینا گویا خود اپنے آپ کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ اس لیے شکایات کو چیلینج کے طور پر قبول کرنا چاہیے۔ مسائل کو چیلینج کی صورت میں دیکھنے سے نہ صرف مسائل کا ازالہ ہوتا ہے، بلکہ آدمی کو اپنی شخصیت میں پوشیدہ نئے نئے پہلو اور امکانات بھی دریافت ہونے لگتے ہیں۔
موجودہ زمانے کو اگر علمی اور معلوماتی بلندیوں کا دور تصور کیا جاسکتا ہے تو بلا شبہ، اخلاقی پستی کا دور ہونے کی بدنامی بھی اسی کے حصہ میں آنی چاہیے۔ مادی ترقی اور اخلاقی اقدار دونوں دوڑ میں ساتھ ساتھ چلنے کے بجائے آگے پیچھے ہو گئے ہیں۔ انسانی کمالات میں جب اخلاقیات اپنا مقام کھونے لگتی ہیں، تب انسانی ترقی کے کوئی خاص معنی نہیں رہ جاتے، بلکہ دوسرے الفاظ میں انسان کے زوال کی الٹی گنتی شروع ہو جاتی ہے۔ اس موڑ پر انسان، علم اور اخلاق میں واقع تال میل کی جس کمی اور بے چارگی سے دوچار ہو رہا ہے یا ہونے والا ہے، اس کا سدباب حاملِ قرآن ہونے کی وجہ سے صرف مسلمان کر سکتے ہیں یا پھر وہ خوش نصیب حضرات جنہوں نے قرآن مجید سے دوستی کرلی ہے۔ قرآن پاک میں مسلمانوں کے مسائل کا تو حل موجود ہے ہی، اس کتابِ ہدایت کی روشنی میں مسلمان اپنے ہم وطن اور ساری دنیا کے انسانوں کی بہترین رہنمائی بھی کرسکتے ہیں۔ قرآنیات، اسلامی اخلاقیات اور دوسرے مختلف علوم و اقدار میں اپنی کمزوری کا ادراک حاصل کرنے اور اس کو رفع کرنے کے بجائے پڑھے لکھے مسلمان مختلف مسالک، سیاسی نظریات اور متعدد گروہ اور جماعتوں میں منقسم ہونے کی وجہ سے اپنے لیے کوئی واضح ہدف متعین کر پانے سے گویا محروم نظر آتے ہیں۔ حالاں کہ آج بھی بڑی تعداد میں مسلمان انفرادی سطح پر بلند پایہ علمی و فکری کام کررہے ہیں، مگر مختلف نظریات کی وابستگی کے ساتھ معروف ہوجانے کی وجہ سے، اسلام کی علمی و فکری رہنمائی کا پورا فائدہ نہ تو مسلمانوں کی اپنی قوم کو ہو رہا ہے اور نہ دنیا کے دوسرے انسانوں کو۔ اس لیے، ہم سبھی پڑھے لکھے مسلمانوں، علماء اور دانشوروں کو چاہیے کہ جلد خود کو منفرد دکھانے کی انسانی کمزوریوں اور کوتاہیوں پر گرفت (کنٹرول) حاصل کریں، تاکہ نہ صرف مسلمانوں سے متعلق، بلکہ تمام انسانی مسائل کا حل تلاش کیا جاسکے۔
موجودہ دور کے بیشتر انسان غور و فکر اور منصوبہ بندی کے تحت تشکیل دی گئی زندگی جینے کے بجائے اپنے معاملات میں ردعمل کی نفسیات کا شکار نظر آتے ہیں، جب کہ ردعمل اور انتقام کی نفسیات شرفِ انسانیت سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی۔ آج کل ہر چھوٹی سے چھوٹی بات پر بھی ردعمل (reaction) پیش کرنا گویا لوگوں کا عام مزاج بنتا جا رہا ہے۔ مزید یہ کہ بات کو غور سے سننا بھی مشکل ترین امر نظر آتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے بیشتر لوگ فوری طور پر ردعمل پیش کرنے کے لیے کسی کی بات سنتے ہیں نہ کہ مخاطب شخص کے کلام میں کوئی حکمت یا معنویت دریافت کرنے کے لیے۔ نتیجتاً، معاشرہ گویا بدلے اور ردعمل کی ذہنیت کا کباڑ خانہ بن کر رہ گیا ہے اور کوئی بھی اپنے پیدا شدہ منفی مزاج پر سنجیدہ غور و فکر اور نظر ثانی کرتا ہوا نظر نہیں آتا ہے۔ ہم سبھی کو یہ ضرور جاننا چاہیے کہ ردعمل کی نفسیات میں مبتلا ہو کر ہم اپنا بہت بڑا نقصان کررہے ہیں۔ موجودہ دور کے حالات کا تجزیہ دن رات ہو رہے اس بڑے نقصان کی تصدیق کر سکتا ہے۔ فوری طور پر اور بجلی کی سرعت کے ساتھ ردعمل ظاہر کرنا گویا دو سانڈو (bulls)کی طرح آپس میں بِھڑ جانا ہے، جہاں تخریب کے سوا تعمیر کا کوئی کام ممکن نہیں۔ ردعمل یعنی گیند کو بغیر سوچے سمجھے ایک دوسرے کے پالے میں پھینکتے رہنے کی جستجو انسان کو خالقِ کائنات کی عطا کردہ بے شمار بالقوہ انسانی صلاحیتوں کے ظہور پزیر ہونے سے محروم کر دیتی ہے۔ انسان صرف اپنی صلاحیتوں کے دم پر ہی ترقی کے منازل طے نہیں کرتا ہے، بلکہ اس کے والدین، بھائی بہن، اساتذہ اور دوست و احباب وغیرہ کی مختلف اور متفرق ذہنی اور عملی خصوصیات بھی اس کی ترقی کے راستے میں غیر معمولی تعاون عنایت کرتی ہیں۔ شرط صرف ایک ہے، وہ یہ کہ خود کو ردعمل کی نفسیات سے مغلوب کئے بغیر ہر کس و ناکس سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔
جیسا کہ اسلامی تعلیمات سے اخذ کیا جاسکتا ہے، ردعمل کی نفسیات کے ساتھ کام کرنا شرفِ انسانی کے شایان شان نہیں ہے۔ ردعمل کے طریقوں سے وابستہ رہنے والے افراد اپنی زندگی میں کوئی بڑا کارنامہ انجام دینے اور کسی بھی میدان میں بامعنی ترقی کرنے سے محروم رہتے ہیں۔ انسانی مطالعہ نے بھی واضح کر دیا ہے کہ کام یاب اور با اثر لوگوں کی عادات ردعمل کی نفسیات سے پاک ہوتی ہیں۔ اس لیے، اپنی مشکلات اور مسائل کو حل کرنے کے لیے مسلمانوں کے لیے اشد ضروری ہے کہ وہ ردعمل کے بجائے غور و فکر کے بعد کئے جانے والے عمل(Be Proactive) سے خود کو وابستہ کریں۔ اس ضمن میں اسٹیفن آر کو وے(Stephen R. Covey) کی عالمی سطح پر مشہور و معروف کتاب:
The 7 Habits Of Highly Effective People
کا مطالعہ مسلمانوں، خصوصاً مسلم نوجوانوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔
انتقامی جذبات اور ردعمل کی کیفیات کے ساتھ سوال کرنے یا جواب دینے کا رجحان خوش آئند نہیں ہے۔ اس لیے، مسلمانوں کو اس طرز گفتار اور طرز عمل سے جلد از جلد اور یکطرفہ طور پر دست بردار ہوجانا چاہیے۔ مزید یہ کہ مسلمان اس کا تحمل نہیں کرسکتے، کیوں کہ ان کے اپنے مذہب کی نظر میں بھی ردعمل کا رویہ(attitude) مبارک اور پسندیدہ نہیں ہے۔ اسلام دینِ انسانیت ہے اور انسانوں کی دائمی فلاح کے لیے سچائی کی دعوت اس کا مشن ہے۔ بلا شبہ، دعوت یکطرفہ خیر خواہی اور حسن سلوک کا تقاضا کرتی ہے، جب کہ ردعمل پیش کرنے والا شخص اپنے مخاطب کے جذبات و نظریات کے احترام کی پاسداری میں ناکام رہتا ہے۔ ایسے شخص کا نشانہ صرف اپنی ذات اور اپنا مفاد ہوتا ہے۔ اس لیے، یہ ہر شخص کی انسانی اور اخلاقی ذمے داری ہے کہ وہ اپنی بات رکھنے کے ساتھ ساتھ دوسرے افراد کے جذبات و احساسات کی بھی تکریم بجا لائے۔ اللہ تعالیٰ کے تخلیقی منصوبہ کے تحت، انسان بہ حیثیت انسان قابل احترام ہے۔ اپنے پرائے کے امتیاز سے قطع نظر، جو اشخاص تمام لوگوں کو احترام و اکرام کی نظر سے دیکھتے ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ بندوں میں شامل رہتے ہیں۔ دوسرے لوگوں کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آنا گویا اپنے رب کا حکم ماننا ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر حکم کو دل کی پوری آمادگی کے ساتھ اپنے یقین و عمل سے ہمکنار کرنے والے خوش نصیب افراد ہی دراصل، حزب اللہ (اللہ کا گروہ)ہیں، جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ”اللہ کا گروہ (جماعت) ہی فلاح پانے والا ہے“ (المجادلہ-58: 22)۔
یہاں تک آتے آتے یہ واضح ہو جانا چاہیے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل آخر ہیں کیا اور وہ کس طرح بہ خیر و خوبی حل ہو سکتے ہیں۔ ابھی تک کی گئی گفتگو کا ماحصل یہی ہے کہ کوئی بھی مسئلہ پیدا ہونے کی صورت میں، ہمیں سب سے پہلے اپنے ’گھر‘ کا جائزہ لینا چاہیے کہ کہیں کوئی غلطی ہماری اپنی جانب سے تو سرزد نہیں ہو رہی ہے۔ اس کے بعد جب اپنے مسائل کے متعلق دوسرے افراد سے بات چیت کی جائے تو شروعات میں صرف مسائل کی نوعیت کا بیان ہونا چاہیے نہ کہ الزام تراشی کا سلسلہ شروع کردیا جائے۔ یہ بات ہمیشہ یاد رہنی چاہیے کہ دنیا کے دارالامتحان ہونے کی وجہ سے یہاں مختلف اوقات میں مختلف نوعیت کے مسائل کا پیدا ہوتے رہنا ہمیشہ ممکنات میں شامل رہے گا، البتہ نرمی، بردباری اور رواداری کے ساتھ کلام کا آغاز کرنے کی صورت میں، ہو سکتا ہے کہ مشکل(a simple problem)خود مسئلے (a complex situation) کے درجہ تک پہنچنے سے پہلے ہی حل ہو جائے۔
اگر ہم اپنے ہم وطن، محلے والے افراد اور پڑوسی حضرات کے تئیں بھائیوں جیسے خیر خواہانہ جذبات اور ان کے ساتھ ہونے والے طرز عمل (برتاؤ) اور معاملات میں حسن سلوک روا رکھنے کی کوشش کریں تو امید کی جاسکتی ہے کہ مسائل ہی پیدا نہ ہوں، اور اگر فی الواقع ہو بھی جائیں تو وہ مکروہ شکل اختیار نہ کرسکیں۔
”اسلام میں یہ مطلوب ہے کہ آدمی معاملات میں فریق ثانی کے ساتھ فراخ دلی کا طریقہ اختیار کرے۔ وہ صبر کے ساتھ خلاف مزاج باتوں کو سہے۔ ناگواریوں کے باوجود دوسرے کا حق ادا کرے۔ جب آدمی ایسا کرتا ہے تو وہ صرف فریق ثانی کے لیے اچھا نہیں کرتا، بلکہ خود اپنے لیے بھی اچھا کرتا ہے۔ اس طرح وہ اپنے اندر حقیقت پسندی کا مزاج پیدا کرتا ہے اور حقیقت پسندی کا مزاج، بلا شبہ اس دنیا میں کام یابی کا سب سے بڑا زینہ ہے“ ( تذکیر القرآن- سورۃ الطلاق کی تفسیر کا ایک اقتباس).
دراصل، سبھی انسان ایک دوسرے کے بھائی(اور بہن) ہیں۔ تہذیبی اور علمی تعریف کے اعتبار سے بھائی بھائی آپس میں ایک دوسرے کے ہمدرد اور خیر خواہ ہوتے ہیں؛ اور بھائی بھائی صرف وہی افراد نہیں ہوتے جو ایک ماں اور ایک باپ سے پیدا ہوتے ہیں، بلکہ دنیا بھر کے سارے انسان کسی نہ کسی شکل میں ایک دوسرے کے بھائی ہوتے ہیں۔ اگر ایک طرف مسلمان مسلمانوں کے دینی بھائی ہیں تو دوسری جانب بقیہ سارے انسان، حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہاالسلام کے تعلق سے مسلمانوں کے انسانی بھائی ہیں۔
انسانی بھائی چارے اور معاشرتی معاملات کو خوش گوار بنائے رکھنے کے لیے، اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے بندوں کے لیے بے نظیر حکمت عملی وضع کرنے کے ساتھ ساتھ، اس کے خوش آئند ہونے کی خوش خبری بھی ہدایت فرمادی ہے:
”اور بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو، پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی وہ ایسا ہو گیا جیسے کوئی قریبی دوست“(فصلت-41: 34)۔