تبدیلی مذہب قانون Conversion law
قومی خبریں

کرناٹک تبدیلی مذہب مخالف قانون آئین کے آرٹیکل 25 کی صریح خلاف ورزی ہے۔ بی آر بھاسکر پرساد، ایس ڈی پی آئی

بنگلور۔(پریس ریلیز)۔ سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا کے ریاستی جنرل سکریٹری بی آر بھاسکر پرساد نے کرناٹک تبدیلی مذہب مخالف قانون (کرناٹک پروٹیکشن آف رائٹ ٹو فریڈم آف ریلیجن بل2021) کو ذات پات کے نظام جیسے ظالمانہ نظام کو برقرار رکھنے کیلئے بی جے پی کی حکمت عملی کا ایک حصہ قرار دیا ہے۔

اس کرناٹک تبدیلی مذہب مخالف قانون کا مقصد اس اعلان کے سوا کچھ نہیں ہے کہ ذات پات کے نام پر دلتوں پر ظلم کرنا منو وادیوں کا حق ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ آئین ہند کے آرٹیکل 25کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اپنے موجودہ مذہب یا پیدائشی طور پر مسلط کردہ مذہب سے الگ ہو کر دوسرے مذہب کو قبول کرنے کا عمل ایک ایسا عمل ہے جو پوری دنیا میں جاری ہے۔

آئین کے معمار ڈاکٹر بی آرامبیڈکر نے کہا کہ دلتوں، خاص کر اچھوتوں کو اس مذہب سے الگ ہو جانا چاہیے جس میں ذات پات کے نظام جیسا ظالمانہ، غیر انسانی، ذلت آمیز اور مکروہ نظام ہے۔ یہ ہمارا آئینی حق بھی ہے۔

بھاسکر پرساد نے کہا ہے کہ منووادی بی جے پی حکومت نے دلتوں سے یہ حق چھیننے کے لیے تبدیلی مذہب مخالف قانون لایا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ایکٹ صرف زبردستی اور لالچ میں تبدیلی مذہب کے خلاف ہے۔

لیکن ایکٹ میں کچھ شرائط کو دیکھتے ہوئے، کوئی بھی شخص کسی بھی وجہ سے مذہب تبدیل نہیں کر سکتا، چاہے اس کا دل بدل جائے۔ اس میں شامل ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اگر مذہب تبدیل کرنے والے شخص کا کوئی خونی رشتہ دار اس کی مخالفت کرتا ہے یا ضلع کمشنر کے سامنے یہ بیان دیتا ہے کہ اس کا رشتہ دار پیسے کے عوض یا جبر کے تحت مذہب تبدیل کر رہا ہے، تو ضلع کمشنر ایسی تبدیلی مذہب قبول نہیں کرے گا یہ ایسی صورت حال پیدا کرتا ہے جہاں تبدیلی مذہب تقریباً ناممکن ہے۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ میں اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کروں اور میرے تمام رشتہ داروں کو بھی اس پر راضی ہونا پڑے؟

انہوں نے سوال کیا اور الزام لگایا کہ یہ بی جے پی حکومت کی دلت مخالف پالیسیوں کا حصہ ہے اور آر ایس ایس کی چال ہے، جو مسلسل اچھوت کو پروان چڑھا رہی ہے۔حکومت کے پاس کون سے اعداد و شمار ہیں کہ جبری تبدیلی مذہب ہو رہا ہے؟ اب تک کتنے مقدمات درج ہوئے؟ کیا کسی عدالت نے اس معاملے پر کہیں بھی فیصلہ دیا ہے؟ اگر ہے تو حکومت عوام کے سامنے رکھے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی یہ دلیل جھوٹ سے بھری ہوئی ہے۔ جبری تبدیلی مذہب کا دعوی ہوا میں گولی چلانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔کانگریس پارٹی اب ایوان میں ایکٹ کی کاپیاں پھاڑ کر جوش دکھا رہی ہے۔ لیکن کانگریس اس ایکٹ کی پیدائش کی ذمہ دار ہے۔ 2013 میں کانگریس حکومت نے اس ایکٹ کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔

ایس ڈی پی آئی کے ریاستی جنرل سکریٹری نے کانگریس کے خلاف برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس دلتوں کو پیچھے سے دھوکہ دے رہی ہے اور ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپ رہی ہے۔یہاں تک کہ بی جے پی بھی جانتی ہے کہ یہ ایکٹ آئین کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے، آنے والے دنوں میں وہ عدالتوں کی ٹھوکریں کھائیں گے۔

ایس ڈی پی آئی ریاستی جنرل سکریٹری بی آر بھاسکر پرساد نے الزام لگایا کہ تمام محاذوں پر شکست کھانے والی بی جے پی کی بومئی حکومت فرقہ پرست اور بدعنوان ہے، انتخابات کے دوران ہندوتوا کے نام پر ووٹ حاصل کرنے کے لیے کسی نہ کسی طرح اس قانون کو غیر آئینی طور پر نافذ کر رہی ہے۔