what is the Operation Polo
حالات حاضرہ

آپریشن پولو/ پولیس ایکشن کیا ہے؟

انگریزوں نے 1947 میں باضابطہ طور پر ہندوستان چھوڑ دیا تھا لیکن انگریزوں نے مختلف ریاستوں کے بادشاہوں کو یہ اختیار دیا تھا کہ وہ ہندوستان یا پاکستان میں شامل ہو جائیں یا آزاد رہیں۔ ریاست دکن کے میر عثمان علی خان آزاد رہنا چاہتے تھے، جیسے جموں و کشمیر کے ہری سنگھ وغیرہ۔ میر عثمان علی خان کے انکار کرنے کی وجہ سے ہی آپریشن پولو ہوا۔

سنہ 1948 میں ہندوستانی حکومت نے آخری نظام میر عثمان علی خان کے ساتھ کئی مہینوں کی بات چیت کے بعد فوج بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ یہ کارروائی تقریبا چار دن تک چلتی رہی اور 17 ستمبر 1948 کو ریاست حیدرآباد ہندوستان میں ضم ہوگئی۔

ہندوستانی حکومت کی جانب سے جے این چودھری کی قیادت میں فوجی آپریشن ہوا۔ جسے مقامی زبان میں آپریشن پولو یا پولیس ایکشن کہا جاتا ہے۔ آپریشن پولو نے کئی دہائیوں کے بعد بھی حیدرآبادی عوام کے ذہنوں پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اس دوران لاکھوں مسلمان ہلاک کیے گئے۔

آپریشن پولو پر سندر لال کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آپریشن پولو کی وجہ سے 26000 تا 40000 مسلمان مارے گئے، خاص طور پر مہاراشٹر اور کرناٹک کے اضلاع میں مسلمانوں کو تہہ تیغ کردیا گیا۔

العیدروس نے اپنی یاداشت میں کہا تھا کہ ’’میں نے کمانڈر انچیف کی حیثیت سے سرحدوں سے فوجیوں کو 3 میل کے اندر اندر ہٹا لیا تھا تاکہ ہندوستانی فوج کے ساتھ جھڑپوں سے بچ سکیں جو پہلے ہی سرحدوں پر پہرہ دے رہی تھی۔ میر لائق علی اور ان کے کابینہ کے وزراء حیدرآباد کی مسلح افواج کے تصرف کے بارے میں فیصلہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور وہ رضاکاروں کو منظم کرنے میں لگے ہوئے تھے‘‘۔

پولیس ایکشن کے پیچھے ایک بڑی وجہ قاسم رضوی کو سمجھا جاتا ہے، جنھوں نے رضاکار تحریک شروع کی اور جس کے بعض کارکنان مظالم میں ملوث رہے۔ رضوی کے ساتھ مسئلہ ان کے تشدد اور سخت رویہ تھا۔ مرحوم مصنف عمر خالدی نے اپنی بنیادی کتاب ‘حیدرآباد: آف دی فال’ میں نوٹ کیا ہے کہ ’’رضوی کے چارج سنھبالنے کے بعد ایم آئی ایم کافی تیزی سے ایک عسکریت پسند اور کسی حد تک جنونی پارٹی بن گئی تھی، جس پر الزام لگایا گیا کہ وہ بغیر کسی وجہ کے فاشسٹ اور سخت گیر بن گئے‘‘۔

ہندوستانی فوج کی پیش قدمی:

ہندوستانی فوج بمبئی حیدرآباد مین روڈ سے حیدرآباد میں داخل ہوئی اور بالآخر آپریشن پولو کا آغاز کیا۔ العیدروس نے لکھا کہ ’’میں نے اس نا امید صورتحال کا ادراک کیا تھا جس میں ہندوستانی فوج کے ساتھ کسی بھی تصادم کے نتیجے میں صرف جرم کے جذبات اور شاید ہتھیار ڈالنے کی سخت شرائط پیدا ہوں گی‘‘۔ العیدروس کے بقول بیدر میں مقامی لوگوں کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا جہاں انہوں نے ہندوستانی فوج کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی۔

آپریشن پولو کے بعد پولیس ایکشن کی قیادت کرنے والے لیفٹیننٹ کرنل جے این چودھری نے 18 ماہ کے لیے فوجی گورنر کا عہدہ سنبھالا، جس کے بعد ایم کے ویلوڈی کے ماتحت صوبائی حکومت پہلے عام انتخابات تک موجود رہی۔

واضح رہے کہ آخری نظام کو 1950 میں راج پرموک بنایا گیا تھا، جبکہ رضوی کو گرفتار کرکے تقریبا ایک دہائی تک جیل بھیج دیا گیا تھا، جس کے بعد انہیں پاکستان جانے کی اجازت دی گئی تھی۔

حیدرآباد ریاست کا پس منظر:

میر عثمان علی خان دنیا کے امیر ترین افراد میں سے ایک تھے اور وہ سب سے بڑی شاہی ریاست حیدرآباد کے بادشاہ، نسبتا پرامن، ہر دلعزیز اور سیکولر بادشاہ تھے، یہ ریاست 1948 میں 16 اضلاع پر مشتمل تھی۔ جس میں تلنگانہ کے 8 ، مہاراشٹر کے 5 اور کرناٹک کے3 اضلاع شامل تھے۔