Mir Osman Ali Khan
حالات حاضرہ

سقوط حیدرآباد: 17 ستمبر 1948 کو دکن کا بھارت میں انضمام

15 اگست 1947 میں بھارت انگریزوں کی حکومت سے آزاد ہوا، اس وقت ملک کے اکثر ریاستوں میں بادشاہت قائم تھی جن میں حیدرآباد بھی شامل تھا۔آہستہ آہستہ تمام ریاستوں نے اپنی ریاست کو ہندوستان میں ضم کردیا لیکن حیدرآباد کے بادشاہ اپنی رعایا کی بہتری کیلئے حیدرآباد کو آزاد رکھنا چاہتے تھے لیکن اس وقت آزاد ہند کے وزیر داخلہ سردار پٹیل نے حیدرآباد پر فوج کے ذریعے آپریشن پولو کے نام سے چڑھائی کردی۔

اس دوران حیدرآباد کے کم و بیش چار ہزار سپاہی، فوج کے ہاتھوں مارے گئے۔ اپنے سپاہیوں کی موت کی خبر سن کر نظام سابع نے بالآخر 17 ستمبر کو ریاست حیدرآباد کو انڈین یونین میں ضم کرنے کا اعلان کیا جن میں مہاراشٹرا اور کرناٹک کے کچھ علاقے بھی شامل تھے۔

اس سلسلے میں انعام الرحمن غیور تاریخ دان نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں موجودہ بی جے پی حکومت آصف جاہی سلطنت کو ظلم و ستم سے تعبیر کرتی ہے اور یہ بیان کرتی ہے کہ اس حکومت میں رعایا پر ظلم وستم ڈھایا جاتا تھا اور یہاں کی عوام حکومت سے پریشان تھی بالخصوص ہندو طبقہ انتہائی ظلم کا شکار تھا یہ تمام باتیں جھوٹ پر مبنی ہے اور عوام کو گمراہ کرنے کے لئے پھیلائی جارہی ہے۔

انعام الرحمن نے کہا کہ آصف جاہی سلطنت میں تمام رعایا خوشحال تھی اور کسی بھی طبقے سے تعلق رکھنے والے عوام پر کوئی ظلم نہیں ڈھایا جاتا تھا۔ عوام ہر اعتبار سے خوشحال تھی۔

انعام الرحمن نے مزید کہا کہ پولیس ایکشن کے دوران دکن کے کئی علاقوں بالخصوص کرناٹک اور مرٹھوارہ کے کچھ علاقوں میں بے انتہا ظلم وستم کیا گیا، ان تمام واقعات کو جاننے کی ضرورت ہے، کیا یہ تمام چیزیں اس وقت ضروری تھی یا یہ ظلم و ستم جان بوجھ کیا گیا۔

مؤرخین کے مطابق آپریشن پولو کے نام پر اس وقت فوج نے 2 لاکھ مسلمانوں کو شہید کیا تھا نوجوان لڑکیوں اور خواتین کے ساتھ ریپ کیا گیا اور ظلم و بربریت کی انتہا کی گئی۔

انعام الرحمن کا کہنا ہے کہ بی جے پی اور اس کی ہم خیال تنظیمیں 17 ستمبر کو جشن آزادی مناتی ہیں اور نظام کے خلاف حد سے زیادہ زہر افشانی کرتی ہیں۔ اس کے برعکس ایسے بہت سے غیر مسلم افراد آصف جاہی حکمراں کو رعایا پرور بادشاہ مانتے ہیں اور 17 ستمبر کو جشن منانے والوں کو آر ایس ایس کے ہم خیال قرار دیتے ہیں۔ ایسے سیکولر افراد میر عثمان علی خان کی جانب سے رعایا اور ملک کیلئے کئے گئے کاموں کو ناقابل فراموش قرار دیتے ہیں۔

تاریخ دان انعام الرحمن نے کہا کہ عوام کے لیے نظام کی جانب سے انجام دیئے گئے بے مثال کارناموں کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا، میر عثمان علی خان بہادر نے ریاست حیدرآباد کی ترقی کےلیے کئی بے مثال کارنامے انجام دیئے تھے، گلبرگہ میں ایوان شاہی گیسٹ ہاوز کی تعمیر، پارچہ شازی کے لیے ایم ایس کاٹن مل کا قیام جو اس وقت بھارت کی دوسری سب سے بڑی کاٹن مل تھی، صوبہ داری دفتر کا قیام، گورنمنٹ کالج، محبوب گلشن گارڈن، محبوب ساگر، سنٹرل لائبریری، ریلوے اسٹیشن، پولیس اسٹیشن ندیوں پر پلوں کی تعمیر کے علاوہ نظام کی جانب سے کئی فلاحی کام انجام دیئے گئے تھے جس سے آج بھی لوگ مستفید ہوتے ہیں۔

انعام الرحمن نے کہا کہ آصف جاہی حکومت نے کبھی بھی فرقہ پرستی پر مبنی حکومت نہیں کی بلکہ ان کے دور حکومت میں سب ہی مذہب کے ماننے والے مل جل کر رہا کرتے تھے اور نظام حکومت میں کئی غیرمسلم افراد اہم عہدوں پر فائز تھے۔ انہوں نے کہا کہ نظام نے ہمیشہ ہندو اور مسلمانوں کو اپنی دونوں آنکھوں سے تعبیر کیا تھا۔ سقوط حیدرآباد کے دوران ہزاروں مسلمانوں کو قتل کردیا گیا جبکہ اس دن جشن منانا فرقہ پرستی کو بڑھاوا دینے کے مترادف ہوگا۔