پیپلز یونین فار سول لبرٹیز نے کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی سے متعلق ‘ کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کے اثرات’ کے نام سے ایک رپورٹ جاری کی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ریاستی حکومت کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کے فیصلے اور ہائی کورٹ کی جانب سے اس فیصلے کی برقراری کی وجہ سے کرناٹک میں ہزاروں مسلم طالبات تعلیم سے محروم ہوگئیں ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ریاست بھر کے طلباء نے کہا کہ ہائی کورٹ کے فیصلے سے متعدد بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی۔
پی یو سی ایل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "جن حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہے ان میں امتیازی سلوک کے بغیر تعلیم کا حق، برابری کا حق، وقار کا حق، رازداری کا حق، اظہار رائے کا حق، غیر امتیازی سلوک کا حق اور صوابدیدی ریاستی کارروائی سے آزادی وغیرہ شامل ہیں‘‘۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کرناٹک حکومت نے "کالجز میں حجاب پر پابندی کو یقینی بنانے کے لئے یکطرفہ توجہ” کی وجہ سے اپنے آئینی فرض کو مکمل طور پر نظر انداز کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق کرناٹک حکومت کے اس فیصلے نے متعدد طلباء کو اپنے تعلیمی سرگرمیوں کو چھوڑنے پر مجبور کردیا۔
پی یو سی ایل نے چیف منسٹر بسواراج بومئی پر زور دیا کہ وہ اس فیصلے کو منسوخ کریں جس میں اسکولز اور کالجز میں حجاب پہننے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ علاوہ ازیں عدلیہ پر بھی زور دیا گیا کہ وہ اس بات کی تحقیقات کرے کہ حکومت نے ایسا "اچانک، من مانی اور غیر آئینی” فیصلہ کیوں کیا جس سے مسلم طالبات کا تعلیم کا بنیادی حق متاثر ہوتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ "انسانی حقوق کمیشن اور اقلیتی کمیشن کو متعلقہ طلباء کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرنے پر پرنسپلز اور کالج ڈیولپمنٹ کمیٹیز کے خلاف از خود شکایات درج کروا کر جلد از جلد کارروائی شروع کرنی چاہیے‘‘۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ عدالتی کیس کے نتیجے میں تعلیمی اداروں میں نافذ کردہ حفاظتی اقدامات کی وجہ سے طلباء اسکولز اور کالجز میں جانے سے خوفزدہ ہوگئے ہیں۔ رپورٹ میں ان واقعات کا بھی نوٹس لیا گیا جس میں ہندو لڑکوں نے مبینہ طور پر واٹس ایپ گروپس کے ذریعے دھمکی آمیز پیغامات بھیجے۔
رپورٹ میں ایک طالب علم کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ "انہوں نے کہا کہ وہ ہمیں سزا دینا اور جان سے مارنا چاہتے ہیں، اور اسی طرح کی دوسری دھمکیاں دینا چاہتے ہیں”۔
طلباء نے پی یو سی ایل کو یہ بھی بتایا کہ کچھ لڑکوں نے انہیں سرعام ہراساں کیا اور انہیں "اے حجاب” اور "اے برقعہ” کہہ کر پکارا گیا۔ سروے میں پتہ چلا کہ کئی کالجز نے اپنے طلباء کا دفاع کرنے کے بجائے ہراساں کرنے کی حوصلہ افزائی کی اور انہیں اس طرح کی حرکتیں کرنے سے منع نہیں کیا۔
رپورٹ میں ایک طالبہ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ "جب پرنسپل ہمیں دیکھتے ہیں، وہ ہمیں نصیحت کرتے ہیں، ہم سے پوچھتے ہیں کہ ہم یہاں کیوں پڑھتے ہیں۔ ہم حجاب کیوں پہنتے ہیں، اور اس طرح کے دوسرے طنزیہ سوالات پوچھتے ہیں”۔
واضح رہے کہ دسمبر 2021 میں کرناٹک میں حجاب تنازع شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہی یہ تنازع پوری ریاست میں پھیل گیا حکومت نے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی عائد کردی۔ نہ صرف کرناٹک بلکہ مدھیہ پردیش اور دیگر علاقوں میں بھی مختلف تعلیمی اداروں میں با حجاب طالبات کو داخل ہونے اور امتحان دینے سے روک دیا گیا۔
اوڈپی ضلع کے چھ طالبات نے ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی تھی جس پر ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت کے حجاب پر پابندی کے فیصلے کو برقرار رکھا اور پھر یہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا جہاں ابھی یہ معاملہ زیر سماعت ہے۔