history of the month of Safar
اسلامی مضامین

صفر المظفر کا تاریخی پس منظر اور موجودہ مسلم معاشرہ

حضور نبی مکرم خاتم النبین رحمة للعالمین سیدنا وسید المرسلین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت مبارکہ جس ماحول و معاشرہ میں ہوئی، وہ با لکل کفر و شرک کی گہری تاریکیوں میں ڈوبا ہوا اور توہمات و باطل افکار و اعتقادات کی اسیری میں جکڑا ہوا تھا۔

عقیدہ توحید سے محرومی نے اس معاشرہ کو بد شگونی کے گہری کھائی اور غاروں میں ڈھکیل دیا تھا، اپنے خالق ومالک کو بھولے ہوئے ‘ اس کے در سے ٹوٹے ہوئے انسان در در کی ٹھوکریں کھا رہے تھے، خوف خدا و خوف آخرت سے بے نیازی نے ان کو ہر چھوٹی بڑی حقیر سے حقیر ترین چیز سے ڈر و خوف میں مبتلا کر دیا تھا، اسی ڈر و خوف کے زیرِ اثر مشرکین عرب ماہ صفر اور ماہ شوال کو منحوس سمجھتے تھے، اور ان مہینوں میں اسی بد اعتقادی کی وجہ سے نکاح و شادی اور دیگر اچھے کام کر نے سے سخت احتراز کرتے، کسی نئے کام کے آغاز یا کسی مہم کے سر انجام دینے سے باز رہتے تھے۔

ان کا یہ عقیدہ تھا کہ ان مہینوں کے نحس ہو نے کی وجہ ان مہینوں میں کیا جانے والا کوئی کام کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا، اس رسم بد کی بیخ کنی کیلئے اسلام نے ماہ شوال کو مکرم اور ماہ صفر کو مظفر کی صفت سے متصف کیا۔ دل و دماغ سے اس بد اعتقادی کے جراثیم کو کرید کرید کر نکال باہر کر نے کیلئے مزید عملی اقدامات کئے۔

ماہ صفر اسلامی مہینوں کی ترتیب کا دوسرا مہینہ ہے، تین پے درپے حرمت والے مہینوں کے بعد یہ مہینہ زمانہِ جاہلیت میں جنگ و جدال کا پہلا مہینہ تھا، جس میں سارا عرب معاشرہ اپنے اپنے گھروں کو خالی کرکے سارے سازوسامان اور اہل و عیال کا ایک قافلہ لے کر میدان کار زار میں جمع ہوجاتے تھے اور اپنے نام و نمود، حسب و نسب اور انتقامی جنگوں میں مصروف ہوجاتے تھے اسی لئے عرب اسے صفر المکان یعنی گھروں کو خالی کرنے کا مہینہ کہتے تھے جو اس لحاظ سے اپنے طور پر ضرور انفرادیت کا حامل ہے۔

مگر اسلامی نقطہ نظر سے چونکہ سارا زمانہ محترم ہے اس لحاظ سے یہ مہینہ بھی بہت ساری عظمتوں اور حرمتوں کا حامل ہے، البتہ نہ کوئی خصوصی فضیلت وارد ہوئی ہے اور نہ کوئی مخصوص عملی اہمیت کی تاکید ہے۔ دینِ اسلام نے ہمیشہ توحیدِ خالص کی تعلیم دی ہے، جاہلی معاشرے کے رسم و رواج، توہم پرست سماج کی فرسودہ روایات اور یہود و نصاریٰ کی مذہبی تحریفات کی وجہ سے جو غلط فہمیاں اور بے بنیاد باتیں ،بے تکے اعمال، اور بے وجہ توّہمات کی بناء پر اس مہینے کی بابت نحوست اور بد شگونی منسوب ہوگئی۔

اسلام کی آمد کے بعد قرآن مجید نے دوٹوک الفاظ میں ان ساری چیزوں کی ممانعت کردی۔چنانچہ حضرت نبی مکرم سید عالم سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ماہ شوال المکرم میں نکاح فرمایا، ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مجھ سے زیادہ اور کون خوش نصیب ہو سکتا ہے۔ یعنی کسی دن یا مہینہ میں کوئی نحوست ہوتی تو پھر مجھ کو یہ بلند مقام کس طرح مل سکتا تھا اور یہ مرتبت رفیعہ کس طرح میرے حصّہ میں آسکتی تھی۔

معاشرہ سے اس بد شگونی و بد اعتقادی کے آثار کا بالکلیہ خاتمہ کرنے کیلئے ام المومنین رضی اللہ عنہا اپنے خاندان کی لڑکیوں کے نکاح کیلئے ماہ شوال المکرم کا انتخاب فرماتیں چونکہ دور جاہلیت کے بے بنیاد اعتقادات و توہمات میں سے ایک ”ماہ صفر“ کا نحس ہونا بھی تھا اس لئے ماہ صفر کے بارے میں دریافت کیا گیا کہ مشرکین عرب ماہ صفر کو منحوس سمجھتے ہیں توآپ ﷺ نے ایک مختصر اور بلیغ جملہ ”لا صفر“ یعنی ماہ صفر میں کوئی نحوست نہیں ارشاد فرماکر فکر و فہم کو جلا بخشی ہے اور اس بد شگونی و بد اعتقادی‘جاہلانہ رسم ورواج کے جال میں محبوس معاشرہ کو چھٹکارا دلایا ہے۔

خلیفہ ثانی امیر المومنین حضرت سیدنا عمر ابن الخطابؓ کے عہد خلافت میں ماہ صفر کے مہینہ میں ہی بے شمار فتوحات حاصل ہوئی ہیں۔ اسی ماہ میں بڑے بڑے ممالک اسلامی سلطنت میں شامل ہوئے ہیں۔ اگر ماہ صفر منحوس ہوتا تو حضرت سیدنا عمر کے دور خلافت میں اسلامی لشکر کو اس طرح کی بے شمار فتوحات حاصل نہیں ہوتی۔

ماہ صفر المظفر کو تیرہ تیزی کا مہینہ بھی کہتے ہیں، بعض ضعیف الاعتقاد اس ترقی یافتہ دور میں آج بھی اس مہینہ کو مصائب و آلام ، حوادث و آفات کے نزول کا مہینہ مانتے ہیں اور اس ماہ کے منحوس ہو نے کا اعتقاد رکھتے ہیں، بعضوں نے من گھڑت روایات کے حوالے سے جو بعض غیرمستند کتب میں منقول ہیں اس بد عقیدگی کو مضبوط و مستحکم کر نے کی کوشش کی ہے۔

ان میں سے ایک مو ضوع روایت، فکر صحیح و صحت اعتقاد سے محروم افراد بیان کرتے ہیں کہ ”سال تمام میں جتنی بلائیں نازل ہوتی ہیں اتنی ماہ صفر میں نازل ہو تی ہیں اور ماہ صفر میں نازل ہونے والی ساری بلائیں صرف تیرہ تیزی یعنی تیرہ صفرالمظفر کے دن نازل ہو تی ہیں۔ ( استغفر اللہ ) اور ہم میں سے کئی لوگ ان بلاوں سے بچنے اور ان سے محفوظ رہنے کے لئے مختلف جاہلانہ طریقوں کو بھی اپناتے ہیں جن کا شریعت مطہرہ سے کوئی تعلق نہیں۔

دور جاہلیت میں بعض عربوں کا ماننا تھا کہ صفر سے مراد وہ سانپ ہے جو ہر ایک انسان کے پیٹ میں ہوتا ہے اور شدید بھوک کے وقت ڈستا ہے اور ایذاء پہونچاتا ہے، بعضوں کا خیال تھا کہ صفر سے مراد پیٹ کے وہ جراثیم ہیں جو بوقت بھوک کاٹتے ہیں، اس کی وجہہ آدمی کا رنگ زرد ہو سکتا ہے اس سے ہلاکت بھی ہوسکتی ہے، اور اس کے اثرات بد دوسروں میں سرایت کرسکتے ہیں، اس لئے بھی وہ”صفر“ کو منحوس جانتے تھے۔

ماہ و سال، صبح وشام اور دن و رات کے آٹھوں پہر اللہ کی مخلوقات میں سے ہیں۔سارا زمانہ حرمت اور برکت والا ہے، اور تمام مہینوں کی طرح صفر کا مہینہ بھی ان اہم مہینوں میں سے ایک ہے جس میں عہدِ نبوت، زمانہ رسالت اور دور خلافت راشدہ کے بے شمار غزوات ،سریات اور فتوحات واقع ہوئیں،بے شمار ملکوں میں اسلام کا جھنڈا لہرایا گیا، لا تعداد لوگوں نے اسلام قبول کیا، اور دنیا و آخرت کی سعادتوں سے مالا مال ہوئے۔

اسی لئے اس مہینہ کے نام کے ساتھ مظفر کا لفظ لگایا گیا، جس کے بعد یہ صفر المظفر یعنی کامیاب اور صفر باظفر کہلانے لگا اور معنوی اعتبار سے بھی صفر کامہینہ کامیاب ہوگیا، اسی لئے اس میں بدشگونی تو دور کی بات بدظنی کی بھی گنجائش نہیں، اقوام و ملل اور زمان و مکان کی تاریخ کا خزانہ اس تاریخی حیثیت سے بھرا پڑا ہے قرآن و حدیث کے نصوص بھی اس کے شاہد ہیں کہ نحوست اور بدفالی کا تصور بے بنیاد ہے،خیر وشر(بھلائی وبرائی) ، نفع و نقصان، سود وزیاں، عزت و ذلت، مرض و شفا،غم و مسرت اور افلاس و تونگری صرف اور صرف اللہ تعالی وحدہ لا شریک کے قبضہ قدرت میں ہے۔

اسی وحدہ لا شریک کی مرضی و منشاءکے مطابق بندے کامیابیوں سے ہمکنار ہوتے ہیں، اور اس کی نافرمانی کرکے ‘ گناہوں میں مبتلا ہوکر اور شرک و بدعت میں ملوث ہوکر ‘ تنہا اس کی عبادت نہ کرنے سے رسوائیوں اور ناکامیوں کے گہری کھائی میں جاگرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نحوست اور سعادت کا معیار انسان کا اپنا عمل ہوتا ہے، ہر وہ نیک عمل جو خالص اللہ کی رضا کے لئے کیا گیا ہو چاہے وہ سال کے کسی مہینے، مہینے کے کسی روز وشب، صبح وشام کے کسی پہر، پہر کے کسی وقت اور کسی لمحہ میں ہو، وہ لمحہ، وہ وقت، وہ مہینہ اور وہ زمانہ باسعادت ہے اور اس میں ہمارے لئے بھلائی ہے۔

الغرض صفر، مظفر ہے صفر باظفر ہے ،صفر نے غزوات کے سب سے پہلے غزوہ ،غزوة الابواءسے اسلام کو کامیابیاں بخشی ہیں، صفر نے صحابہ کرامؓ سابقینِ اولین کو جینے کا حوصلہ دیا ہے۔ پیغمبر انسانیت رحمة للعالمین سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ نے حجة الوداع کے موقع پر جو خصوصی پیغام قیامت تک آنے والی ساری انسانیت کیلئے دیا ہے وہ ایک عظیم منشور ہے جس کی عظمت کو غیر مسلم مفکرین نے بھی تسلیم کیا، اور مستشرقین نے بھی اس سے روشنی حاصل کی ہے، اقوام متحدہ کے دستور میں بھی اس سے بھر پور استفادہ کیا گیا ہے۔

اس خطبہ بلیغہ میں بد شگونی و بد اعتقادی کے جاہلانہ رسوم و عادات کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ”اے لوگو جہالت کے جتنے رسوم تھے ان سب کو اپنے قدموں تلے روندتا ہوں، تمہارے درمیان دو چیزیں ایک قرآن پاک دوسری میری سنت چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم ان دونوں کو تھامے رہوگے کبھی گمراہ نہ ہوگے تم سب ایک اللہ کے بندے اور ایک باپ یعنی آدم علیہ السلام کی اولاد ہو ‘ تم میں سب سے زیادہ باعزت وہ شخص ہے جو اللہ تعالی سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ہو۔

اگر ہم اس حدیث شریف کے تناظر میں ہمارے موجودہ مسلم معاشرہ کا جائزہ لیں تو یقینا ہم نے حضور نبی کریم ﷺ نے جن دو چیزوں کو مضبوطی کے ساتھ تھامنے کا حکم فرمایا تھا آج وہیں دو چیزوں کو ہم نے پس پشت ڈال دیا ۔ اور ان دو مقدس چیزوں کو یکسر طور پر بھلا دیا۔ آج کے معاشرہ کے افراد کو نہ تو قرآن شریف پڑھنے کی توفیق ہوتی ہے اور ان ہی اس سمجھنے کی۔ چہ جائیکہ اس پر عمل کرے۔

قرآن مجید ہمارے گھروں میں غلافوں میں محفوظ کرکے رکھ دیا جاتا۔ اس کی طرف دیکھنے کی ہم کو فرصت نہیں ملتی۔ ہم میں سے اکثریت سوشل میڈیا سے گھنٹوں گذار دیتے ہیں۔ ہمارا فیس بک آن لائن ‘ ہمارا ٹویٹر آن لائن ‘ ہمارا واٹس اپ آن لائن ‘ اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر ہم چوبیسوں گھنٹے آن لائن رہتے ہیں۔ اگر آف لائن رہتے ہیں نماز سے ‘ قرآن مجید کو پڑھنے سے ‘ قرآن مجید کو سمجھنے سے ‘ قرآن مجید پر عمل کرنے سے ‘ اپنی زندگیوں سے اللہ سبحانہ وتعالی کے احکامات عمل کرنے سے ‘ حضور نبی کریم ﷺ کے سنن مبارک پر عمل کرنے سے۔ تو کس طرح ہم گمراہ نہیں ہوں گے۔ علامہ اقبال ؒ نے اسی ضمن میں بجا فرمایا تھا ۔

وہ معزز تھے زمانہ میں مسلماں ہو کر
ہم خوار ہوئے زمانہ میں تارکِ قرآں ہوکر

اگر ہم آج بھی جاہلانہ رسم ورواج پر عمل پیرا ہو اور مشرکین عرب کے عقیدہ پر چلتے ہوئے ماہ صفر کو منحوس سمجھ کر اس ماہ میں کوئی اچھا کام نہ کرے اور اپنے ایمان کے کامل ہونے کا عملی ثبوت نہ دے تو اللہ تعالی قرآن مجید میں ناقص ایمان والوں کےلئے سخت وعید بیان فرمائی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ” اور جو کوئی ایمان کا انکار کرے ( اپنے ایمان میں نقص پیدا کرے ) تو اس کے تمام اعمال ضائع ہوجائیں گے اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا “۔

موجودہ مسلم معاشرہ اگر اس آیت پاک کو سرمہ بصیرت بنالے تو پھر سماج سے فرسودہ رواجات، بدعات و خرافات دور ہو سکتے ہیں اور جاہلانہ افکار کی اسیری سے وہ رہائی پا سکتے ہیں۔ ایمان والوں کا فرض ہے کہ وہ اسلامی اعتقادات و اعمال کا عملی پیکر بنیں، اور فرسودہ رسوم و رواجات، بیجا اوہام و خرفات، خلاف اسلام عادات وبدعات کے شکنجہ میں جکڑی ہوئی انسانیت کو عملی پاکیزہ اسلامی فطری راہ دکھا کر اس سے اس کو رہائی دلائیں۔

اللہ تعالی تمام امت مسلمہ کو تمام جاہلانہ رسم و رواج اور توہمات واعتقادات سے بچنے، زندگی کے ہر شعبہ میں اور ہر قدم پر اس کے احکامات پر عمل کرنے‘ قرآن مجید کو پڑھنے‘ سمجھنے اور اس پر عمل کرنے‘ اس کو مضبوطی کے ساتھ تھامنے اور حضور نبی کریم ﷺ کے سنن مبارک پر عمل کرنے ‘کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین