سپریم کورٹ نے سنہ 2002 کے گجرات فسادات کے مقدمات کی کارروائی کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے بند کر دیا۔
چیف جسٹس یو یو للت اور جسٹس ایس رویندر بھٹ اور جے بی پاردی والا کی بنچ نے اپنا حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ قومی انسانی حقوق کمیشن کے ذریعہ تشدد کے معاملات کی مناسب انکوائری کی مانگ کرنے والی دس عرضیوں کو نمٹا دیا گیا ہے۔ اس لیے اب ان معاملات کی ضرورت نہیں رہی۔
بنچ نے کہا کہ عدالت نے فسادات سے متعلق نو مقدمات کی تحقیقات اور ٹرائل کے لیے ایک خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دی تھی۔ ان میں سے آٹھ میں مقدمے کی سماعت مکمل ہو چکی ہے۔ عدالت کو اب ان معاملات کو سننے کی ضرورت نہیں ہے۔
بنچ نے کہا کہ ٹرائل کورٹ میں ایک معاملہ چل رہا ہے، جو ‘حتمی بحث’ کے مرحلے میں ہے۔ سینئر وکیل مکل روہتگی، ایس آئی ٹی کی طرف سے پیش ہوئے، بنچ کے سامنے دلیل دی کہ نو مقدمات میں سے صرف ایک زیر التوا ہے۔ نرودا گاؤں کے علاقے سے متعلق ایک معاملے پر بحث کا عمل آخری مرحلے میں ہے۔
روہتگی نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ دیگر معاملات میں مقدمے کی سماعت مکمل ہو چکی ہے اور وہ معاملات یا تو ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے سامنے ہیں۔
عدالت عظمیٰ کے سامنے بحث کرتے ہوئے وکیل اپرنا بھٹ نے کہا کہ تیستا سیتلواڑ کی سیکورٹی سے متعلق عرضی زیر التوا ہے۔ اپرنا بھٹ نے کہا کہ انہیں سیتلواڑ سے ہدایات نہیں مل سکیں کیونکہ وہ فی الحال گجرات پولیس کے ذریعہ درج ایک نئے کیس میں حراست میں ہیں۔ اس پر سپریم کورٹ نے سیتلواڑ کو سیکورٹی کے لیے متعلقہ اتھارٹی سے رجوع کرنے کی اجازت دی۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ وہ درخواست گزار کی درخواست پر قانون کے مطابق فیصلہ کرے گی۔
گجرات فسادات میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔ 2002 میں 27 فروری کو شرپسندوں نے گودھرا اسٹیشن پر ایک سابرمتی ایکسپریس ٹرین کو آگ لگا دی تھی، جس کے نتیجے میں 59 کار سیوک مارے گئے تھے۔ اس پرتشدد واقعہ کے بعد گجرات میں فسادات پھوٹ پڑے تھے اور ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور خواتین کی عصمت ریزی کی گئی۔