bilkis banu csse
حالات حاضرہ

بلقیس بانو کے مجرمین

جس دن ہمارے وزیر اعظم خواتین کے تحفظ اور ان کو با اختیار بنانے کی ضرورت پر یوم آزادی کے موقع سے لال قلعہ کی فصیل سے قوم کو خطاب فرما رہے تھے، اسی دن گجرات سرکار نے ان گیارہ مجرمین کو جیل سے رہا کردیا جسے عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) نے بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت دری معاملہ میں عمر قید کی سزا سنائی تھی، ان مجرمین کی رہائی سے بلقیس بانو کو سخت صدمہ پہونچا اور ان کے شوہر یعقوب رسول حیرت زدہ رہ گیے، برسوں بعد انہیں مجرمین کو سزا ملنے سے اطمینان ہوا تھا، لیکن اب انہیں پھر سے اپنے تحفظ کی فکر ستا رہی ہے کہ کہیں یہ غنڈے پھر سے ان کو ستانے کے لیے نہ آ دھمکیں۔

بات 3 مارچ 2002ء کی ہے جب گجرات فساد کے موقع سے بلقیس بانو پر آفت ٹوٹ پڑی تھی اس کے خاندان کے سات افراد بشمول اس کی تین سالہ بیٹی کو اس کی آنکھوں کے سامنے قتل کر دیا گیا تھا، بلقیس بانو اس وقت پانچ ماہ کی حاملہ تھیں اور ان کی عمر اکیس سال تھی، غنڈوں نے ان کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی، زمانے تک بلقیس بانو ایف آئی آر درج کرانے کے لیے تھانے کے چکر لگاتی رہی ، لیکن معاملہ درج نہیں ہوا۔

بالآخر حقوق خواتین سے متعلق بعض تنظیموں کے ذریعہ معاملہ سپریم کورٹ پہونچا، نامزد ملزم اٹھارہ تھے، لیکن 2008ء میں سی بی آئی عدالت نے چودہ افراد کو مجرم قرار دیا اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی، تین دنیا سے چل بسے، باقی گیارہ افراد کی سزا کو ممبئی ہائی کورٹ نے بھی بر قرار رکھا، اور مجرمین جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہے۔

آزادی کے پچھہتر سال مکمل ہونے پر مرکزی حکومت نے ایک گائیڈ لائن جاری کی، جس کے مطابق طویل مدت سے جیل میں رہ رہے قیدیوں کو آزادی کے امرت مہوتسو کے موقع سے آزاد کر نے کی تجویز تھی، البتہ مرکزی حکومت نے یہ واضح کر دیا تھا کہ اس سہولت سے عصمت دری کرنے والے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے، اس ہدایت کے خلاف ریاستی حکومت نے ان مجرمین کو رہا کرکے اس ملک کی خواتین کو ذلیل کرنے کا کام کیا ہے۔

گجرات حکومت کا یہ فیصلہ وزیر اعظم کے اس اعلان کی بھی خلاف ورزی ہے، جس میں انہوں نے خواتین کے تحفظ اور ان کو با اختیار بنانے کے عزم کا اظہار کیا تھا، مجرمین رہا کر دیے گیے، لیکن بلقیس بانو کو سپریم کورٹ کی ہدایت کے با وجود نہ مکان دیا گیا، اور نہ سرکاری ملازمت، اب یہ مجرمین آزاد ہو گیے ہیں ، یہ سب بلقیس بانو کے گاؤں کے ہی ہیں، یہ بات سب کو معلوم کہ گھناونے کام کو کرنے والے بلقیس بانو کے پڑوسی ہی تھے۔

ایسے میں پھر ایک بار بلقیس بانو کے لیے تحفظ کا مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے، طویل قانونی جنگ لڑنے کے بعد بلقیس بانو پھر سے اپنے کو غیر محفوظ محسوس کر رہی ہے، اس لیے گجرات حکومت کو ان کے خاندان کے تحفظ کا معقول انتظام کرنا چاہیے کیوں کہ ان مجرمین کے حوصلے بہت بڑھ گیے ہیں اور وہ سمجھنے لگے ہیں کہ ان کے اوپر حکومت کا ہاتھ ہے۔

وہ قتل اور عصمت دری جیسے جرائم کے ارتکاب کے باوجود آزادانہ گھوم سکتے ہیں، اور ان کے حامیوں نے جس طرح ان مجرمین کی رہائی کے بعد خوشیاں منائیں، جیل سے باہر آنے پر ان کا استقبال کیا اور مٹھائیاں تقسیم کیں، یہ ایک خطرناک رجحان ہے، لیکن گجرات میں انتخاب ہونے ہیں، اس لیے حکومت ہندتوا ووٹ کو متحد کرنے کے لیے اس خطرناک رجحان پر پابندی لگانے کے موڈ میں نظر نہیں آرہی ہے۔