ہندوستان میں جرائم کثرت سے ہوتے ہیں، جس سے سماج کے پُر امن اور شریف لوگوں کو دشواریوں اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس میں کمی بیشی تو ہوتی رہتی ہے، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ جرائم کا صدور ہی نہ ہو، سماج بھی اس کا اس قدر عادی ہو گیا ہے جرم کے کسی واقعہ کے سامنے آنے پر اسے تحیر اور تعجب نہیں ہوتا۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ جو لوگ جرائم کی دنیا سے جڑے ہوئے ہیں، ان میں پینتالیس فی صد ایسے بچے ہیں ، جنہوں نے ہائی اسکول یا مڈل اسکول تک تعلیم حاصل کی ہے ، ایک رپورٹ کے مطابق ۲۸؍ فی صد مجرم بچے وہ ہیں، جنہوں نے پرائمری سطح تک کی تعلیم حاصل کر رکھی ہے ۔
بچوں میں مجرمانہ مزاج پیدا ہونے کی بڑی وجہ ان کے والدین کی عدم توجہی ہے، زندگی اس قدر مصروف ہو گئی ہے کہ والدین کے پاس بچوں کو دینے کے لیے دقت نہیں ہے، ایسے میں یہ بچے اپنا وقت گھر سے باہر گذار نے لگتے ہیں، جن کی صحبت آوارہ اور اوباش لڑکوں سے ہوجاتی ہے، اور پھر دھیرے دھیرے وہ جرم کے دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں اور ان کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ اس سے باہر آجائیں ، کیوں کہ جہاں وہ اس جال سے باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کی جان پر خطرہ منڈلانے لگتا ہے۔
ایک مطالعہ میں یہ بھی پایا گیا کہ مختلف جرائم میں پکڑے گیے مجرمین میں ننانوے (۹۹)فی صد بچے ہی تھے، لطف کی بات یہ ہے کہ ان میں سے پچاسی(۸۵) فی صد مجرم بچے والدین کے ساتھ ہی رہا کرتے تھے۔
بچوں کی نفسیات کو بگاڑنے اور جرم کے دلدل تک پہونچانے میں والدین کے منفی رویوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا، گھر کا ماحول ، والدین کے خانگی جھگڑے اور بچوں پر مختلف قسم کے دباؤ کی وجہ سے بچوں کی ذہنیت بگڑ جاتی ہے اور وہ تناؤ کے شکار ہوجاتے ہیں، بعض گھروں میں والدین ہی جرائم کی دنیا سے وابستہ ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے بچے بھی اس راستے پر چل پڑتے ہیں اور والدین کی حوصلہ افزائی اس میدان میں ان کو دور تک بھٹکا کر لے جاتی ہے۔
اس تجزیہ کا حاصل یہ ہے کہ اگر بچوں کو جرم کی دنیا سے الگ رکھنا ہے تو والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی اچھی تربیت کا نظم کریں، بچوں کے لیے ان کے رول ماڈل اور آئیڈیل والدین ہوتے ہیں، ایسے میں ضروری ہے کہ والدین بھی اخلاقی زوال سے بچیں اور جرم کی دنیا سے دو رہنے کو اپنی زندگی کا نصب العین بنائیں، والدین ببول کے پیڑ کی طرح ہوں گے تو اس میں اچھے پھل لگنے کی توقع فضول ہے، گلاب کے پیڑ میں گلاب کھلتے ہیں اور دھتورے کے پیڑ میں دھتورہ، یہی قدرت کا نظام ہے۔
خود اگر والدین دھتورے کی مانند ہیں تو ان کے بچے گلاب کے مانند نہیں ہو سکتے، اس لیے ضرورت ساری توجہ اپنی ذات اور بچوں کی تربیت پر مرکوز رکھنے کی ہے، یہی ایک طریقہ ہے جس سے بچوں میں بڑھ رہے مجرمانہ ذہنیت کو ختم کر نا ہمارے لیے ممکن ہو سکے گا، خوب اچھی طرح یاد رکھنا چاہیے کہ اگر آپ نے اپنی اچھی صحبت دے کر اپنے بچوں کو نیک نہیں بنایا تو دوسرے اپنی بُری صحبت سے بچوں کو بُرا بنا دیں گے۔