سپریم کورٹ کے تبصرے
حالات حاضرہ

سپریم کورٹ کے تبصرے

نوپور شرما نے ایک ٹی وی مباحثہ میں 27؍ مئی 2022ء کو ناموس رسالت پر حملہ کیا تھا، اس کے نازیبا کلمات کی وجہ سے پورے ملک میں نفرت کی عام فضا میں اضافہ ہوا تھا، کان پور اور رانچی میں مظاہروں کے درمیان درجنوں لوگ زخمی ہوئے تھے اور کئی کی موت ہو گئی تھی، نوپور شرما کے خلاف بنگال میں دس، بستی میں دو، دہلی ، حیدر آباد اور شری نگرمیں ایک ایک ایف آئی درج ہوئے، لیکن پولیس اسے گرفتار نہیں کر سکی، بار بار سمن بھیجنے کے بعد وہ حاضر نہیں ہوئی، تو بنگال پولیس نے اس پر لک آؤٹ سمن جاری کیا ہے۔

ان حالات سے نمٹنے کے لیے نو پور شرما نے سپریم کورٹ میں درخواست دی تھی کہ سارے مقدمہ کو دہلی منتقل کیا جائے اور اس کی سُنوائی سپریم کورٹ کرے،لیکن سپریم کورٹ نے اسے خارج کر دیا، اور کہا کہ اس عرضی سے غرور جھلکتا ہے، نوپور شرما کو نچلی عدالت چھوٹی معلوم ہوتی ہے، اس معاملہ کو وہ چاہیں تو ہائی کورٹ لے جا سکتی ہیں۔ابھی حال میں عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کے بعد نوپور شرما کی گرفتاری پر روک لگا دی ہے البتہ اپنے تبصروں سے دباؤ کے باوجود رجوع نہیں کیا ہے۔

پہلے فیصلہ کے وقت جو تبصرے اور رولنگ سپریم کورٹ نے دیے، ان کی قانونی حیثیت نہ ہونے کے باوجود بڑی اہمیت ہے، اس لیے کہ اس کی وجہ سے عدالت کا رخ پورے ملک کے سامنے آیا، سپریم کورٹ کے فاضل جج نے کہا کہ خطرہ نوپور شرما کو نہیں، بلکہ وہ پورے ملک کے لیے خطرہ بن گئی ہیں۔

عدالت نے ادے پور میں درزی کے قتل ہونے کا ذمہ دار بھی اسی کو ٹھہرایا اور کہا کہ ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی ذمہ دار بھی وہی ہیں، عدالت نے دہلی پولیس سے یہ بھی پوچھا کہ آخر اس کو گرفتار کیوں نہیں کیا جا رہا ہے صرف اس لیے کہ وہ ایک پارٹی کی ترجمان ہیں، ترجمان کا مطلب یہ تو نہیں ہوتا کہ اس کو اول فول بکنے کا لا ئسنس مل جاتا ہے، ان کی طرف سے کوئی مقدمہ درج ہوتو مدعا علیہ کو گرفتار کر لیا جائے اور ان کے خلاف دس مقدمات ہیں تو ان کی گرفتاری نہ ہو۔

نوپور شرما کے وکیل نے جب ارنب گوسوامی مقدمہ کا حوالہ دے کر سارے مقدمات سپریم کورٹ منتقل کرنے کی بات کہی تو عدالت نے کہا کہ اس واقعہ کا تعلق صحافت سے تھا، یہ تو سیاسی پارٹی کی ترجمان ہیں اور نتیجوں کو جانے بغیر اپنے بیان سے نفرت پھیلا رہی ہیں، اس لیے ان کے معاملہ میں ایسا نہیں کیا جا سکتا۔

عدالت کے اس تبصرہ سے نوپور شرما اور اس کے ذریعہ پھیلائی گئی نفرت کے خلاف ایک ماحول پورے ملک میں بنا ہے اور اس کا فائدہ سماج کو یقینا پہونچے گا، لیکن یہ سوال پھر بھی اپنی جگہ باقی ہے کہ مجرم کو سزا دینے کا کوئی اعلان اس فیصلہ میں نہیں ہے، اور پورے ملک سے سے ٹی وی پر آکر معافی مانگنے کی جو بات کہی گئی ہے وہ اس کے جرم کی سزا نہیں ہے۔

ہو سکتا ہے، ہائی کورٹ اس کو یہی سزا سنا دے کہ پورے ملک کی عوام سے ٹی وی پر آکر معافی مانگو، اور بلا شرط مانگو، لیکن اس سزا سے اس قسم کے واقعات پر روک نہیں لگ سکے گی، جہاں تک ادے پور کانڈ کی بات ہے تو اب یہ خبریں بھی آ رہی ہیں کہ وہ دونوں بی جے پی کے کیڈر تھے، اگر ایسا ہے تو راجستھان میں آگ لگانے کی جو سازش کی گئی تھی، اس کی حقیقت پر سے پردہ اٹھتے ہی اس معاملہ میں بی جے پی کے کردار سے بھی پردہ اٹھے گا، حالاں کہ اس قسم کے معاملات میں بی جے پی تو پہلے ہی سے بے نقاب ہے۔

اس تبصرہ کے بعد فرقہ پرست طاقتوں نے ججوں کی ذاتیات پر حملے شروع کر دیے ہیں، بلکہ ایک صاحب نے تو ان تبصروں کو واپس لینے کے لیے عرضی بھی سپریم کورٹ میں داخل کر دی ہے، اس صورت حال سے عدالت عالیہ کے معزز ججوں کو سخت ذہنی کرب کا سامنا ہے، یہ درد وکرب گذشتہ دنوں سی این فاؤنڈیشن کے ذریعہ منعقد ایک پروگرام میں چھلک آیا جب جسٹس پار دیولا نے شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت پر تنقید قابل قبول ہے، مگر ججوں پر ذاتی حملے بالکل بر داشت نہیں۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا پر کنٹرول رکھنے کے لیے کوئی طریقہ کار طے کرنا چاہیے، ایسے حساس معاملوں میں پارلیامنٹ کو بھی اقدام کرنے چاہیے، انہوں نے کہا کہ اس قسم کے ذاتی حملے سے انصاف کا عمل متاثر ہوتا ہے، کیوں کہ عدالت کی توجہ صرف اس بات پر ہوتی ہے کہ قانون کیا کہہ رہا ہے۔

لیکن جب میڈیا ٹرائل شروع کرتا ہے تو لوگ یہ سوچنے لگتے ہیں کہ میڈیا کیا کہتا ہے؟ حالاں کہ اس کے پاس آدھا سچ ہوتا ہے، اس طرح دیکھا جائے تو یہ عدالت کے کاموں میں غیر ضروری مداخلت ہے، جس سے خطرناک منظر نامہ سامنے آتا ہے اور عدالت کے فیصلے اس کے ریمارکس پر عوام تذبذب کے شکار ہو جاتے ہیں۔