Rameez Raja Revives Centuries Old Mud-Building Heritage
جموں و کشمیر

گاندربل: مٹی سے تعمیر کردہ گھروں سے صدیوں پرانی وراثت زندہ

ایک ایسے وقت میں جب ٹیکنالوجی نے زندگی کے تمام پہلوؤں کو آسان سے آسان بنا دیا ہے، سرینگر ضلع سے تعلق رکھنے والے کے ایک شخص نے صدیوں پرانے کچے مکانات بنانے کا مشن شروع کیا ہے، جنہیں کشمیر میں بہت پہلے ترجیح دی جاتی تھی۔

ضلع کے کنگن کے کج پورہ گاؤں میں واقع مٹی کی عمارتوں کا نظارہ مقامی لوگوں اور سیاحوں کے لیے کشش کا مرکز بن گیا ہے۔ اب تک مٹی کے کئی مکانات تعمیر کیے جا چکے ہیں۔جو باہر سے مٹی کے بنے ہوئے ہیں جبکہ اندر سے ہوٹلوں کی طرز پر تمام تر سہولیات سے آراستہ ہیں۔ ان مٹی کے بنے ہوئے ہٹ مالک رمیض راجہ نے بتایا کہ ان ہٹوں پر کام دو سال قبل شروع کیا گیا تھا اور اس سال مئی میں انہوں نے اسے آپریشنل کر دیا تھا۔

اس تصور کے بارے میں انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کا روایتی طرز زندگی سادہ اور تناؤ سے پاک ہے۔ "مٹی کے گھر ہر جگہ تھے اور لوگ متعدد مقاصد کے لیے روایتی مٹی کے برتنوں کا استعمال کر رہے تھے۔جسکی وجہ سے ایک تو کشمیر کی روایت، تہذیب اور تمدن برقرار رہتا تھا، جبکہ دوسری جانب اس چیزوں کی وجہ سے زندگی میں ذہنی سکون تھا، لیکن اس کو آہستہ آہستہ ختم کرکے لوگ یہاں کے تہذیب تمدن سے دور ہوتے چلے گئے۔

رمیض راجہ کا کہنا ہے کہ یہ تصور ان کے ذہن میں آیا اور اس نے اس پر کام شروع کردیا۔ "ہمارے پاس گاؤں میں زمین تھی اور اب تک تین مٹی کے ہٹ مکمل ہو چکے ہیں۔ یہ اس سال شروع ہوا اور میں نے آس پاس میں ایک ریستوراں بھی کھولا ہے۔جس میں مٹی کے بنے ہوئے برتن استعمال ہوتے ہیں اور انہی کا استعمال کھانا پکانے سے لے کر کھانے تک کیا جاتا ہے۔ "مقصد ہمارا یہی ہے کہ بھرپور ثقافت سے جڑے رہنا اور اپنے صارفین کو بہترین خدمات فراہم کرنا ہے۔

ابھی تک مجھے پورے ملک میں مقامی لوگوں اور سیاحوں دونوں سے مثبت رائے ملی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ جدید زندگی کے خلاف نہیں ہیں لیکن اس میں کچھ کمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ "ہمیں اپنی بھرپور ثقافت اور روایت پر ہمیشہ فخر کرنا چاہیے۔

راجہ کا ماننا ہے کہ وادی کے لوگ اپنے ثقافتی ورثے سے دور ہوئے ہیں اور ان میں سے اکثر نۓ گھروں اور ہوٹلوں میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ کنگن پہاڑوں کے دامن میں خوبصورت اور جمالیاتی طور پر تعمیر کیے گئے مکانات مقامی طور پر حاصل کیے گئے خام مال سے بنائے گئے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس کا بنیادی مقصد ہر کسی کو کشمیر کی گمشدہ ثقافت سے آگاہ کرنا تھا۔ ممبئی کے ہوٹل اور کشمیر کے ہوٹل میں کچھ فرق ہونا چاہیے۔ لوگ ہل اسٹیشن کے بارے میں تصور کرتے ہیں اور وہ اسے محسوس کرنا چاہتے ہیں۔ روایتی گھاس کی چھتوں سے لے کر پرانے دروازوں اور کھڑکیوں تک، یہ کچے گھر ہر جدید سہولت سے آراستہ ہیں۔

ایک مٹی کے گھر میں تقریباً 4 لوگوں کے رہنے کی گنجائش ہوتی ہے۔ مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ اس طرح کے مزید ڈھانچے تعمیر کرنےکے بارے میں سوچ رہے ہیں کیونکہ "ہمیں مقامی لوگوں اور سیاحوں کی طرف سے حوصلہ افزا ردعمل مل رہا ہے۔ یہاں تک کہ مقامی لوگ بھی یہاں سیلفی لینے آتے ہیں۔

نوجوان کاروباری نے کہا کہ روایتی طرز زندگی کے علاوہ وہ مہمانوں کو وازوان سمیت روایتی پکوان بھی پیش کر رہے ہیں اور دیہی دیہاتی زندگی کو اس کی رنگین شان میں تجربہ کرنے کا ایک منفرد موقع ہے۔