اسرائیلی جیلوں میں بے شمار ایسے فلسطینی قیدی ہیں جو بغیر کسی الزام یا جرم کے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں۔ حال ہی میں ایک فلسطینی معمر خاتون کی اسرائیلی قید میں شہادت ہوئی۔
انادولو ایجنسی کی خبر کے مطابق ایک 26 سالہ فلسطینی آرٹسٹ نے اسرائیلی جیل کے اندر اپنے سیل کی دیواروں پر پینٹنگ کرکے خود کو ذہنی اور جذباتی طور پر بچایا۔
فلسطینی مصور محمد عزیز عاطف نے حال ہی میں اپنی 8 ماہ کی سزا مکمل کی۔ محمد عزیز عاطف نے کہا کہ پینٹنگز ڈرائنگ نے انہیں جیل کے اندر تاریک دنوں میں زندہ رہنے کا سبب بنایا اور وقت گذارنے کا بہترین سبب بنا۔
جمعہ کو یوتھ سکلز کے عالمی دن کے موقع پر انادولو ایجنسی سے بات کرتے ہوئے عاطف نے کہا کہ "یہ پینٹنگز اور میری مہارت جیل کے اندر خود کو بچانے کا طریقہ تھی۔ جیل آپ کی توانائی سے آپ کو مارنے کے لیے ایک اچھی طرح سے تیار کردہ جگہ ہے، چونکہ کائنات کو یہ توانائی دینے کا کوئی طریقہ نہیں ہے، اس لیے یہ آپ کو مار سکتا ہے۔‘‘
اسرائیلی جیل حکام پینٹنگز کے لیے کسی خاص اوزار کی اجازت نہیں دیتے۔ اس لیے عاطف نے کاغذات حاصل کرنے کے لیے یا تو انھیں جیل کینٹین میں مہنگے داموں خرید کر یا بیرون ملک سے اسمگل کر کے جدوجہد کی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق عاطف نے کہا کہ اس نے خشک قلم، پنسل اور نوٹ پیپر کو کلر اور پورٹریٹ اسکیچز کے لیے بطور آلہ استعمال کیا۔ اس نے کاغذ کے رنگ کو تبدیل کرنے کے لیے ایک روغن کے طور پر انتہائی مرتکز کافی کا استعمال کیا۔
اسرائیلی فوج نے نومبر 2021 میں عاطف کو وسطی مغربی کنارے میں رام اللہ کے شمال میں واقع قصبے برزیت میں ان کے گھر سے گرفتار کیا تھا۔ عاطف کو ان کی سرگرمیوں کی وجہ سے آٹھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی جنہیں "خطرہ سلامتی” کے طور پر درجہ بندی کیا گیا تھا۔