ریاست اترپردیش کے دار الحکومت لکھنو میں لولو گروپ کی جانب سے قائم کردہ لولو مال میں نماز پڑھنے کا ایک ویڈیو وائرل ہوا جس کے بعد فرقہ پرست عناصر کو ہندو مسلم تنازع کھڑا کرنے کا ایک اور موقع مل گیا۔
نماز کا ویڈیو وائرل ہونے کے بعد شدت پسند ہندو تنظیموں نے مطالبہ کیا کہ ہمیں بھی اس مال میں ہنومان چالیسہ اور سندرکنڈ پڑھنے کی اجازت دی جائے۔ پولیس نے نامعلوم لوگوں کے ایک گروپ کے خلاف مقدمہ درج کیا جنہوں نے مبینہ طور پر یہاں کھولے گئے لولو مال میں نماز ادا کی تھی۔
اسی دوران ایک دائیں بازو کی ہندو تنظیم نے اس پر اعتراض کیا اور اجازت طلب کی کہ انھیں بھی ہندو مذہبی عبادت کی اجازت دی جائے۔ ان پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے اور مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
ہفتہ کے روز کرنی سینا، ہندو مہاسبھا اور راشٹریہ ہندو سنرکشک دل کے سینکڑوں کارکن ہنومان چالیسہ پڑھنے لؤلؤ مال پہنچے تھے لیکن پولیس نے انہیں روک دیا۔ وہیں دو نوجوانوں کا مال کے اندر جئے شری رام کا نعرہ اور ہنومان چالیسہ پڑھنے کا ویڈیو سامنے آیا ہے۔
پولیس نے احتجاج کرنے والے راشٹریہ ہندو پروٹیکٹر کے رہنما آدتیہ مشرا سمیت دیگر 15 افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔ اس سے پہلے بھی لولو مال کے باہر ہندو مہاسبھا کے لوگوں نے احتجاج کیا تھا۔ ہندو مہاسبھا کے ترجمان ششیر چترویدی نے جمعہ کو شام 6 بجے مال میں سندرکنڈ پڑھنے کا اعلان کیا تھا۔ حالانکہ اسے پولیس نے گھر میں نظر بند کر دیا تھا۔
واضح رہے کہ لکھنؤ میں لولو مال کا افتتاح وزیراعلیٰ یوگی نے 11 جولائی کو کیا تھا۔ 13 جولائی کو اس مال کے اندر کچھ لوگوں کی نماز پڑھنے کا ایک ویڈیو وائرل ہوا۔ اس معاملے میں اکھل بھارتیہ ہندو مہاسبھا تنظیم سمیت کئی ہندو تنظیموں نے مال کے اندر نماز ادا کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کیا تھا۔
ہندو تنظیموں نے مال میں نماز پڑھنے کے معاملے کو بڑا مسئلہ بنا دیا جس کے بعد مال انتظامیہ نے نماز پڑھنے والوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی تھی۔ مال انتظامیہ کو تحقیقات میں معلوم ہوا کہ مال کے اندر نماز پڑھنے والے افراد میں سے کوئی بھی مال کا ملازم نہیں تھا۔ اکھل بھارتیہ ہندو مہاسبھا تنظیم کے ترجمان ششیر چترویدی نے مال کے مالک پر لو جہاد اور مسلم مذہب کو فروغ دینے کا الزام لگایا تھا۔