ہندوستان کی سپریم کورٹ نے بدھ کے روز تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کو برقرار رکھنے والے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کو اگلے ہفتے سماعت کرنے پر راضی ہوگیا ہے۔ جس کے بعد درخواست گذار طالبات نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔
لڑکیوں کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن نے اس معاملے کی فوری فہرست پر زور دیا۔ بھوشن نے کہا کہ”یہ کرناٹک سے حجاب کے معاملات ہیں، اس معاملے کو اب تک لسٹنگ نہیں کیا گیا، یہ معاملہ مارچ میں دائر کیا گیا تھا، اس ضمن میں طلباء کو مشکلات کا سامنا ہے‘‘۔
15 مارچ کو کرناٹک ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت کے حق میں فیصلہ سنایا تھا جہاں اس نے تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے کی اجازت نہ دینے کے فیصلے کو برقرار رکھا۔
حجاب کا مسئلہ گزشتہ سال دسمبر میں اس وقت شروع ہوا تھا جب چھ پری یونیورسٹی کی طالبات کو ان کے کلاس رومز کے اندر جانے کی اجازت نہیں تھی کیونکہ انتظامیہ نے اصرار کیا کہ وہ اپنا حجاب یا سر سے اسکارف اتار دیں۔
یہ معاملہ جلد ہی پوری ریاست میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا جہاں بہت سے سرکاری تعلیمی اداروں نے اس طریقہ کار پر عمل کرنا شروع کر دیا اور حجاب میں ملبوس طلبہ کو احاطے میں داخل ہونے سے روک دیا، کئی طالبات کو امتحان سے محروم بھی ہونا پڑا تھا۔
اس معاملے نے اس وقت ایک سخت موڑ اختیار کیا جب بھگوا شالوں میں ملبوس درجنوں ہندو طلباء نے حجاب میں ملبوس مسکان خان نامی ایک مسلم طالبہ کے خلاف احتجاج شروع کیا۔ اور یہ طلبہ اس کے سامنے نعرے لگانے لگے اس طالبہ نے بھی اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا جس کا ویڈیو سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوا۔ اس واقعے کے بعد امن و امان برقرار رکھنے کے لیے اسکول اور پری یونیورسٹیاں بند کردی گئیں۔
پھر یہ مسئلہ کرناٹک ہائی کورٹ میں گیا جس نے ریاستی حکومت کے اس فیصلے کو برقرار رکھا جس میں کہا گیا تھا کہ حجاب ضروری نہیں ہے اور حجاب اسلام کا ضروری حصہ نہیں اور طلباء کو اپنے متعلقہ اداروں کے قوانین کی پابندی کرنی چاہیے۔
کرناٹک میں حجاب پر پابندی کے بعد ملک کے کئی ریاستوں بالخصوص بی جے پی حکمراں ریاستوں میں با حجاب طالبات کو تعلیمی اداروں میں داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا۔