ڈاکٹر عبد العلیم فلکی
حالات حاضرہ

کیا بکرے کاٹنے میں اسلام کی سربلندی ہے؟

ہر سال لاکھوں جانوروں کو ذبح کرنے اور خوب ڈٹ کر گوشت کھانے اور کھلانے کا اسلام کی سربلندی سے کیا تعلق ہے، اس قربانی کا مقصد آخر کیا ہے، آیئے آج غور کرتے ہیں۔

ایک طرف آج ایسے ہزاروں لوگ ہیں، جن کو آپ مذہب بیزار,لبرل یا ماڈریٹ کہہ سکتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ قربانی کی کیا ضرورت ہے، یہی پیسہ اگر کسی غریب کو دے دیا جائے تو گوشت سے زیادہ کام آئے گا۔ حیرت ہے کہ نئی کار، نئے قیمتی موبائیل یا شادیوں پر حرام خرچ کرتے وقت نہ انہیں کوئی غریب یاد آتا ہے نہ بیمار، لیکن دس پندرہ ہزار کا بکرا خرید نے پر انہیں اچانک خدمتِ خلق یا آجاتی ہے۔

ہر خاندان میں ایک دو ایسے صفائی پسند پیدا ہوگئے ہیں جو قربانی کے پورے عمل سے بہت کراہیت محسوس کرتے ہیں، ان کی ہمت افزائی کے لئے ایسے مولوی بھی پیدا ہوگئے ہیں، جو قربانی کو مکمل کمرشیلائز کرچکے ہیں، وہ بیل کے حصے فروخت کرکے گھر بیٹھے حصہ لاکر پہنچا دیتے ہیں۔ اور انہیں قربانی کی جھنجھٹوں سے دور رکھتے ہیں۔ انہیں اپنے ہاتھوں سے جانور ذبح کرنے کی فضیلت اور اہمیت سے آگاہ نہیں کرتے، کیونکہ انہیں خود بھی چند فقہی احکامات سے زیادہ نہیں معلوم۔

دوسری طرف ان لاکھوں بلکہ کروڑوں شریعت کو چاہنے والے مسلمانوں کا ہجوم ہے جو اس سنّتِ ابراہیمی کو قائم رکھنے دیوانہ وار کئی جانور قربان کرتا ہے۔یہ لوگ قربانی کے سارے فقہی مسائل تو جانتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ آخر ایسی کون سی نیّت ہے جسے پڑھ کر چھری پھیرنے سے اللہ تعالیٰ خون کا پہلا خطرہ زمین پر گرنے سے پہلے قربانی کو قبول فرمالیتا ہے اور صلہ میں دنیا کی امامت یعنی لیڈرشپ یا قیادت عطا کردیتا ہے۔ اگر ایک بکرا قربان کردینے سے دنیا کی امامت ملنے والی شئے ہوتی تو ہر دولتمند شخص پوری بکرا منڈی خرید کر اکیلا ذبح کرتا۔

آج مسلمانوں کے لئے ایک چپراسی یا کانسٹیبل کی سرکاری نوکری ملنا ناممکن ہے، ایسے وقت میں قیادت کی بات کرنا ایک مذاق نہیں تو اور کیا ہے۔ بالخصوص ایک ایسے جمہوری ملک میں جس میں ہزاروں ذاتیں ہیں، جن کے مقابلے میں مسلمان بمشکل بیس فیصد ہیں، تعلیم، اکنامی، ٹکنالوجی اور میڈیا میں کئی سال پیچھے ہیں، جمہوری اصول کے مطابق جہاں اکثریت ہی کے پاس قیادت ہوگی، مسلمان کے لئے اقلیت میں ہوتے ہوئے مکمل قیادت حاصل کرنا ایک دیوانے کی بڑ نہیں تو اور کیا ہے؟

یہی وجہ ہے کہ آج مسلمان سمجھ چکے ہیں کہ ہم کو قیادت ملنے والی نہیں ہے، اس لئے قیادت میں سے تھوڑا حصہ بلکہ خیرات لینے کے لئے فاشسٹوں اور فرقہ پرستوں کے لئے جاسوسی کررہے ہیں، بڑی پارٹیوں میں چھوٹے چھوٹے مفادات کے لئے دلالی اور چمچہ گری کرنے تیار ہیں، ای ڈی اور انکم ٹیکس کے دھاوؤں سے بچنے کے لئے اپنی ہی امت میں دراڑیں ڈال رہے ہیں،اور ایک دوسرے کو خوارج، مشرک، منافق وغیرہ کہہ کر امت میں تفریق اور نفرت پھیلا رہے ہیں۔

ہر شخص خودساختہ لیڈر اور دانشور ہے، اپنی ذاتی شناخت چاہتا ہے۔اللہ کے نبی ﷺ نے ایک جماعت بننے میں قیادت کے حصول کا راستہ دکھایا، لیکن جماعت بننے میں ابوبکر و عمر ؓ کی طرح پہلے ایک والنٹئر بننا پڑتا ہے۔ یہاں ہر ایک کو خود امیر یا چیرمین یا جنرل سکریٹری بننے کاجنون ہے، کوئی کسی کے پیچھے نہیں چلتا۔ اس لئے جس قوم میں سارے امیر اور چیرمین بن جائیں، ہزاروں صدر، ہزاروں نائب صدر بن جائیں تو وہ قوم دنیا کی امامت یا قیادت کیسے کرسکتی ہے؟

یہ بات بھی یاد رکھئے کہ جمہوریت ایک دور کی ضرورت تھی، اور ایک دور میں کامیاب بھی رہی۔ اب جمہوریت کیا ہے، کامیاب ہے یا ناکام ہے یہ سب اچھی طرح جانتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ انسانوں کے بنائے ہوئے نظام کا پابند نہیں۔ واللہ یوتی ملکہ من یشاء واللہ واسع علیم۔وہ نہ اقلیت دیکھتا ہے نہ اکثریت۔ جسے چاہتا ہے حکومت عطا کرتا ہے۔اگرآپ کو دنیا کی قیادت پھر سے ایک بار چاہئے، ایسی قیادت جو نہ فاشسٹوں یا فرقہ پرستوں سے بھیک کے طور پر مانگنی پڑے، نہ Capitalists سے، جو نہ Jews کی غلام رہے اور نہ امریکہ کی، تو وہ قیادت اسی راستے سے ملتی ہے جس سے ابراہیم ؑ کو ملی۔آج آپ جو بکرا کاٹ رہے ہیں، اس راستے کی آخری منزل ہے۔ جو اس منزل سے گزر جائے قیادت اسی کا منصب ہے۔ لیکن یاد رہے یہ پہلی اور آخری منزل نہیں، یہ آخری منزل ہے۔

اس راستے کی سب سے پہلی منزل ہے اگر باپ کی کمائی حلال نہ ہو تو گھر چھوڑ دینا۔
دوسری منزل ہے شرک کے خاتمے کی۔ بتوں کو توڑنے کی پاداش میں شہر سے نکال دیا جاتا ہے۔
تیسری منزل ہے خوف سے باہر نکلنے کی۔ سزائے موت کے خوف سے، بادشاہ اور اس کے قانون کے آگے نہ جھکنے کی سزا کے خوف سے، اس کے بعد ملک بھی چھوڑنا پڑتا ہے۔
چوتھی منزل ہے اللہ کی رضا کے لئے ڈھائی ہزار کلومیٹر دور بے آب و گیاہ صحرا میں بیوی اور گود کے بچّے کو تنہا چھوڑ آنا۔
آخری منزل ہے اللہ کی رضا کے لئے اپنی اولاد کو ذبح کرنا۔
جو ان تمام آزمائشوں میں پورا اترے تو اس کو دنیا کی امامت عطا کی جاتی ہے۔ ورنہ کسی نہ کسی منزل پر وہ شیطانی باطل قیادتوں کا غلام ہوکر رہتا ہے، جس طرح کہ آج ساری دنیا کے مسلمان کسی نہ کسی کے غلام ہیں۔

پہلی ہی حلال کمائی کی منزل پر اگرآدمی ناکام ہوجائے تو سود، رشوت، بے ایمانی اور خیانت کے نظام کا وہ غلام ہوجاتا ہے۔ اس سے وہ باہر نکل ہی نہیں پاتا، بلکہ اور ڈوبتا چلاجاتا ہے۔ اگر کسی طرح وہ حلال کمائی کی آزمائش میں کامیاب ہو بھی جائے تو دوسری منزل پر وہ بت پرستانہ نظام کو ختم کرنے کی سوچ بھی نہیں سکتا، ورنہ فاشسٹ اور فرقہ پرست اس کے گھر پر بلڈوزر چلادیتے ہیں۔اکثریت کی طاقت کے خوف سے چپ رہنا غلامی کی دوسری شکل ہے۔

اگر وہ بت شکنی کے راستے پر چل بھی پڑے توتیسری منزل پر قدم قدم وقت کے نمرود UAPA، POTA یا MISA کی طرح کے قوانین تیار کرکے اس کو آگ میں پھینکنے کا بندوبست کردیتے ہیں۔ اس لئے آدمی قانون کا غلام ہوکر رہ جاتا ہے۔ اور اگر کوئی اس غلامی سے نکل بھی جائے تو چوتھی منزل پر بیوی اور بچے کو مکمل اللہ کی ذات پر توکل کرکے تنہا چھوڑ کر، اپنے خلیفہ ہونے کا حق ادا کرنے صرف ایک اللہ کی بادشاہت قائم کرنے نکل جانا، یہ ناممکن ہے۔ اس لئے آدمی ہر قربانی دینے کے باوجود بیوی کا غلام ہوکر رہتا ہے۔ اور اگر کوئی اس منزل سے بھی گزر جائے تو آخری آزمائش سے گزرنا ناممکن ہے۔ کوئی اللہ کی رضا کے لئے، اولاد کے گلے پر چھری پھیر دے، یہ ناممکن ہے۔ یہاں وہ اولاد کی محبت کا غلام ہوکر رہتا ہے۔

لیکن ابراہیم ؑ ان تمام آزمائشوں میں پورے اترے۔ اس کو اللہ تعالیٰ یوں بیان فرماتا ہے کہ ”و اذابتلیٰ ابراھیم ربہ بکلمات۔۔۔(بقرہ 124)جب اللہ تعالی نے ابراہیم ؑ کو کئی باتوں میں آزمایا اور وہ ہر آزمائش میں پورے اترے، تو اللہ نے اعلان فرمایا کہ میں تمہیں تمام انسانوں کا امام بناونگا، ابراہیم ؑ نے پوچھا کیا میری اولاد کوبھی؟ اللہ نے جواب دیا یقینا، لیکن یہ امامت ان کے لئے نہیں جو ظالم ہوں گے“۔

ابراہیم ؑ کا اپنے بیٹے کو قربان کرنے کا واقعہ تو یقینا آپ نے علما سے بارہا سنا ہوگا۔ بس ایک لمحے کے لئے یہ سوچئے کہ جس وقت ابراہیمؑ کی آنکھوں پر پٹّی بندھی ہے، سامنے جگر کا ٹکڑا یعنی بیٹا لیٹا ہے، اور باپ اس کے گلے پر چھری پھیرنے لگے ہیں اس وقت ان کے دل اور دماغ میں کیا چل رہا ہوگا؟ غم؟ ہیبت؟ پریشانی؟ نہیں، یہ ہرگز نہیں، صرف یہ چل رہا ہوگا کہ ائے اللہ میں تیری رضا کے لئے اپنی اولاد کو بھی ذبح کرسکتا ہوں بسم اللہ اللہ اکبر۔ یہ ہے قربانی کی وہ سچی نیت جس کے بعد دنیا کی امامت عطا کی جاتی ہے۔

ہم کتابوں میں دیکھ کر جو قربانی کی نیّت رٹ لیتے ہیں، اور پڑھ کر جانور ذبح کرڈالتے ہیں، کیا اس وقت دور دور تک ہمارے دل اور دماغ میں یہ بات آتی ہے کہ میں اللہ کی رضا کی خاطر اپنی اولاد کو بھی اسی طرح قربان کر سکتا ہوں جس طرح اس جانور کو کررہا ہوں؟ہمیں نہ کبھی یہ پڑھایا گیا اور نہ بتایا گیا اس لئے اللہ کی رضا کے لئے اولاد کو بھی قربان کرنے کا جذبہ کبھی ہم میں پیدا ہی نہ ہوسکا۔ یاد رکھئے، قربانی کا نصاب، بکرے کی عمر، اس کی صحت، نیّت وغیرہ فقہی رسومات ہیں، جو ذیلی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ حاصلِ قربانی نہیں۔ حاصلِ قربانی یہ ہے کہ بندہ اللہ کی رضا کے لئے اولاد کو بھی قربان کردینے کی سچے دل سے نیت کرے۔

بکرا تو ایک سِمبلSymbol ہے۔ آپ کو بیٹے کو واقعی قربان کرنا نہیں ہے بلکہ اولاد کی محبت، ان کی ترقی اور خوشحالی کے راستے میں جو جو چیزیں ایسی آتی ہیں جو اللہ کی رضا کے خلاف ہیں جیسے رشوت، جھوٹ، زیادہ سے زیادہ مال اور جائداد کی ہوس، جہیز اور کھانے، فضول خرچیاں، باطل قانون کا خوف وغیرہ، یہ تمام چیزیں ذبح کرنے کا نام قربانی ہے۔ پہلے یہ عہد کیجئے اور پھر بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر چھری چلایئے تو وہ قربانی اللہ کے نزدیک وہ قربانی ہے جس کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ تعالی اس قربانی کو قبول فرمالیتا ہے، ورنہ ایسے کروڑوں بکروں کو قربان کرنے سے اسلام کی کوئی سربلندی نہیں ہوگی۔

اگربھگوا غنڈے ایسی قربانی کے جانوروں کے ٹرک روکتے ہیں، ہراساں کرتے ہیں، رشوت وصول کرتے ہیں، یا حجاب اور اذان کی طرح ”حلال“ پر بھی پابندی لگانے کا مطالبہ کرتے ہیں تو غلط کیا کرتے ہیں؟ جب لو گ شریعت پر صرف رسمی عمل کرتے ہوں لیکن منشائے شریعت Ultimate goal of Shariyaہی نہیں جانتے اور نہ اس پر عمل کرنا چاہتے ہوں تو ایسی شریعت کا فائدہ دشمنوں کو کیسے نظر آئے گا؟