حالات حاضرہ کے تناظر میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم کردارِ ابراہیمی کو اپنائیں! سیرت اسماعیل کو حیات فانی کا جزو لاینفک بنائیں! توحید کے عقیدۂ خالص کو جی جان کے ساتھ قبول کر نے اور اس پر ثابت قدم رہنے کا عہد کریں!خانگی و خاندانی معاملات میں قانون الہی کی بالادستی تسلیم کریں! اور ہزار رکاوٹوں اور آزمائشوں کے باوجود حکم شرعی پر عمل پیرا ہوکر حمیت دینی کا ثبوت پیش کریں۔
نَحْمَدُہُ وَنُصَلِّی عَلَی رَسُولِہِ الْکَرِیْم، أَمَّا بَعْدُ! فَأَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللہ الرَّحْمنِ الرَّحِیْمِ اِنَّا اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَ(۱)فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْ(۲)اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ(۳)صَدَقَ اللہ العَظِیم.
اللہ رب العزت نے امتِ محمدیہ کو دو عیدیں عطا فرمائی ہیں۔ ایک کا تعلق رمضان المبارک سے ہے، جو روزے جیسے عظیم فریضہ کی تکمیل کا انعام ہے۔ رمضان’’فَعْلاَن‘‘کے وزن پر ہے؛جس کے کئی معانی ہیں، ایک معنی جَلا دینےکےہیں۔ گویا اس مہینے کو اس لئے رمضان کہا جاتا ہے کہ یہ ہر گناہ کو جلا کر خاکستر کردیتا ہے۔ دوسری عید کا تعلق ذی الحجہ سے ہے، جو حج جیسی اہم ترین عبادت کےاختتام پر مشروع ہوئی ہے؛جسے عید قربان بھی کہتے ہیں۔
قربان ’’فُعْلَان‘‘ کے وزن پر ہے جس کے معنی تقرب کے ہیں۔چوں کہ عید قربان میں کیا جانے ولا عمل (جانور ذبح کرنا وغیرہ) بندے کو اللہ سے اتنا قریب کردیتا ہے کہ کوئی اور لمحہ اسے اتنے قرب سے آشنا نہیں کرتا ؛اس لیے اس کو عید قربان کہاجاتا ہے ۔فرمان نبوی ہے: یوم نحر یعنی دس ذوالحجہ کو اللہ کے نزدیک خون بہانے سے زیادہ کوئی عمل محبوب نہیں ۔قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں بالوں اور کھروں سمیت آئے گا۔ اور بے شک اس کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں مقام قبولیت حاصل کر لیتا ہے پس اس خوشخبری سے اپنے دلوں کو مطمئن کر لو۔
اعلان قربانی کیا ہے ؟
جب سے کائنا ت ہستی وجود میں آئی اللہ تعالی کے کئی ایک برگزیدہ بندےیہاں تشریف لائے؛ جن میں معدودے چند بندوں کو خالق کائنات نے لوگوں کی رشد وہدایت کے لیے منتخب فرمایا اور نبوت کا تاج ان کے سر پر سجایا تاکہ وہ پیغام الٰہی کو ہرکس وناکس تک پہنچائیں اور عہد الست کی یاد تازہ کرائیں۔پھر ان بندگان خاص کے احوال اور قصے اپنی مقدس کتاب قرآن مجید میں بیان کرنے کے بعد فرمایا: ان کے بیان میں عقل والوں کے لئے یقیناً نصیحت اور عبرت ہے، یہ قرآن جھوٹ بنائی ہوئی بات نہیں؛ بلکہ یہ تصدیق ہے، ان کتابوں کی جو اس سے پہلے کی ہیں، کھول کھول کر بیان کرنے والا ہے ہرچیز کو اور ہدایت اور رحمت ہے ایمان دار لوگوں کے لئے ۔(سورہ یوسف)
ان ہی عظیم ہستیوں میں سے سیدنا ابراہیم علیہ السلام بھی ہیں، جن کا تذکرہ اللہ تعالی نے بڑے ہی نرالے انداز میں جگہ جگہ فرمایا۔ یہ وہ نبی ہیں جن سے تین گروہ اپنا تعلق استوار کرتے ہیں یعنی مسلمان، یہودی اور عیسائی بلکہ مشرکین مکہ بھی ان کی طرف نسبت کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالی نے ان لوگوں کی وضاحت کردی جو نسبت کا استحقاق رکھتےہیں! فرمایا :’’کیا تم کہتے ہو کہ ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) اور ان کی اولاد یہودی یا نصرانی تھے؟ کہہ دو کیا تم زیادہ جانتے ہو ۔ یا اللہ تعالیٰ؟ (البقرہ:140) ابراہیم تو نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی بلکہ وہ تو خالص مسلمان تھے مشرک بھی نہ تھے۔(اٰل عمران:67)
قربانی کوئی سالانہ رسم یا گوشت خوری کی تقریب نہیں؛ بل کہ یہ اس عظیم الشان قربانی کی یاد گار ہے جو حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام نے بارگاہ خداوندی میں پیش کی تھی۔جس کا تفصیلی ذکر قرآن پاک میں موجود ہے حضرت ابراہیم بہ مشیت ایزدی اولاد کی نعمت سے محروم تھے اور بار بار یہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ! مجھے صالح اولاد عطا فرمائیے۔ حق تعالی نے ان کی اس دعا کو قبول فرمالیا اورانہیں ایک بردبار و ہونہار بچے کی خوش خبری دی گئی، جب وہ بچہ ان کے ساتھ دوڑنے پھرنے کی عمر کو پہونچا تو ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے لخت جگر اور نورِ نظر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو راہ خدا میں قربان کررہے ہیں۔
باپ نے بیٹے سے اس خواب کا ذکر کیا اور پھر دونوں باپ بیٹے اللہ تعالیٰ کی رضا اور حکم کے سامنے جھک گئے اور چشمِ فلک نے یہ منظر دیکھا کہ بوڑھے باپ نے نوجوان بیٹے کو زمین پر لٹا رکھا ہے، باپ کے ہاتھ میں چھری ہے اور وہ آنکھیں باندھے ہوئے بیٹے کے گلے پر چھری چلا رہا ہے۔ بیٹا خوش ہے کہ اللہ کی راہ میں قربان ہو رہا ہوں اور باپ بھی راضی ہے کہ پیرانہ سالی کی سب سے قیمتی دولت مولا کی درگاہ میں پیش کر رہا ہوں۔ اللہ اکبر کیسا سہانا منظر ہوگا جب غیب سے ندا آئی: اے ابراہیمؑ! آپ نے خواب پورا کر دیا، اب چھری بیٹے کی گردن سے اٹھا لو، آپؑ اس امتحان میں کامیاب ہوگئے۔ (الصافات)
اللہ تعالیٰ کو یہ ادا اس قدر پسند آئی کہ قیامت تک اس سنت کو زندہ و تابندہ کر دیا۔کروڑوں مسلمان ہر سال اس ’’ذبح عظیم‘‘ کی یاد تازہ کرتے ہیں اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔مختصر یہ کہ حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کے مقدس خانوادے نے تسلیم و رضا،اخلاص و وفا،طاعت وانقیاد،محبت و ایثار اور فدائیت و استسلام کا جو عملی نمونہ اپنے رب جلیل کے حضور پیش کیا اور جس خلوصِ دل اور جذبۂ فروتنی سے پیش کیا ،جس جاں فشانی اور خندہ پیشانی سے پیش کیا ، اس کی ایک ادنی جھلک اور ہلکی سے تصویر کشی کا نام قربانی ہے۔
درسِ تسلیم و رضا :
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی سے ہمیں سب سے پہلا سبق یہ ملتا ہے کہ ہم بلا چون وچرا حکم الہی کے آگے سرتسلیم خم کردیں!بدون اشکال و اعتراض فرامینِ رب کو بجالانے والے بن جائیں!اور ادنی شک و تردد کے بغیر ساری کامیابی و کامرانی اسی طریقے کی پیروی میں مضمر سمجھیں جو آخری رسول ﷺ نے امت کے سامنے پیش کیا ہے۔
یہ اس دور کا بہت بڑا المیہ ہے کہ نام نہاد دانشور اور روشن خیال کہلانے والےحضرات شریعت کے صرف اس حکم کو تسلیم کرنے پر مصر ہیں جو عقل کے محدود پیمانے میں سما جائے اور جو حکم بھی عقل کے خلاف محسوس ہو ان کے نزدیک یا تو اس کا انکار ضروری ہے یا دور از کار تاویلات کا سہارا۔ مثلاً بعض لوگ روحانیت سے غافل ہو کر یہ سمجھتے اور کہتے ہیں کہ قوم کا اتنا روپیہ جو تین دن میں جانوروں کے ذبح پر ہر سال خرچ ہو جاتا ہے اور اس کا خاطر خواہ مفاد نظر نہیں آتا، اگر یہی پیسہ رفاہی اور قومی مفادات پر لگایا جائے تو بہت فائدہ ہو ۔
مگر جاننا چاہیے کہ قربانی ایک ایسا عمل اور ایسی عبادت ہے جس سےہزارہا غریبوں کا روزگار وابستہ ہے۔ کتنے غریب ایسے ہوتے ہیں کہ جو عید کے اس موسم کا انتظار کرتے ہیں اور اچھاخاصا زر ِ مبادلہ اپنے گھروں کو لے کر جاتے ہیں۔ کیا قربانی کے عمل کی مخالفت کر کے ہم اُن غریبوں کے رزق کو روکنے کی کوشش نہیں کر رہےہیں؟؟؟
قربانی کے بجائے غریبوں کی مدد کرنے کی مثال یوں ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ نماز و روزے کے بجائے صدقہ کردیا جائے تو زیادہ ثواب ہوگا۔ غریبوں کی مدد کا ثواب ضرور ہوگا؛ لیکن نماز چھوڑنے کی سزا بھی ہوگی۔ اللہ ہماری حفاظت فرمائے۔ (آمین)
قربانی کی جزئیات کے سلسلے میں ائمہ کے اختلاف ہوسکتے ہیں لیکن یہ کہیں بھی نہیں آیا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قربانی نہیں کی بلکہ اُس کے پیسے صدقہ کردیے ہیں یا کہیں اور خرچ کردیے ہیں ۔ یہ بات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ممکن ہی نہیں کہ وہ ایک کام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے ہوئے دس سال دیکھیں اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخصت ہونے کے بعد اُس عمل کو یہ کہہ کر چھوڑ دیں کہ یہ ایک سنت ہی ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی اس حوالے سے ہمارے لیے اسوہ اور نمونہ ہے کہ انہوں آزمائش کے کسی بھی مرحلے میں کیوں اور کیسے کا سول ہی نہیں کیا؛ بلکہ پوری بشاشت اور خوش دلی کے ساتھ ہر ابتلاء میں کھرے اترتے چلے گئے تب کہیں جاکر حق تعالی کی جانب سے یہ مژدۂ جاں فزا ملاکہ واتخذﷲابراھیم خلیلاً۔
درسِ دعوت و عزیمت :
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی درخشاں زندگی کا ایک نمایاں پہلو یہ بھی ہے کہ آپ نے ابتدا ہی سے مخالف ماحول میں دعوتِ دین اور اشاعت حق کا فریضہ انجام دیا،آپ کی قوم شرک، بت سازی اور ستارہ پرستی جیسی لعنتوں میں گرفتار تھی؛ بل کہ مشہور روایت کے مطابق خود آپ کے والد آزر شہر کے بڑے بت خانہ کے ذمہ دار تھے اور بتوں کو تراش کربیچا کرتے تھے،مگر آپ کو بت پرستی سے سخت نفرت تھی آپ اس کے خلاف آواز بلند کرتے رہے اور اپنے والد اور اعزہ کو اللہ کی وحدانیت کا درس دیتے رہے، لیکن بجائے اس کے کہ وہ کوئی اثر قبول کرتے، والد نے آپ کو گھر چھوڑنے کا حکم نامہ سنادیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی دعوت قوم کے سامنے رکھی اور استدلال کے اچھوتے اسلوب اختیار کیے جس سےقوم لاجواب ہوگئی۔آپ نے بادشاہ وقت کو بھی اپنی دعوت سے روشناس کرایا اور اس کے مناظرانہ دلائل کاایسا توڑ کیا کہ اس سے کوئی جواب بن نہ پایا۔بالاخر آپ کو شعلہ زن آگ کے حوالے کردیا گیا۔
دور حاضر اور موجودہ ملکی حالات کے تناظر میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ حضرت ابراہیم کے حکیمانہ اسلوب اور داعیانہ مزاج کو پیش نظر رکھ کر فریضہ دعوت کی انجام دہی کی کوششیں کی جائیں،عزم و استقامت کا کوہ گراں بن کر اس راہ کی مشقتوں کو انگیز کیا جائے اور صبر وتحمل کے ساتھ مثبت نتائج کا انتظار کیا جائے تب کہیں جاکر ملک کی بد امنی دور اور خوف و ہراس کی فضا تبدیل ہوسکتی ہے۔
درسِ صبر واستقامت :
آپ کی مبارک زندگی کا ایک اہم گوشہ صبر و استقامت بھی ہے کہ آپ نے پورے تحمل کے ساتھ معبود حقیقی کے جملہ اوامر کو بجالایا اور جزع فزع کیے بغیر ثابت قدمی کے ساتھ ہر امتحان میں کامیابی سے ہم کنار ہوئے۔ذرا تصور کیجیے کہ ایک بوڑھے باپ اور کمزور شوہر کو حکم دیا جارہاہے کہ وادیٔ فاران کے سنگلاخ کالے پہاڑوں کے درمیان، تپتے صحرا کے ایک درخت کے نیچے، اپنی محبوب بیوی اور نومولود معصوم بیٹے کوچھوڑدو! اور آپ نے چھوڑدیا۔ان کو جوکچھ زادِ راہ دیاگیاتھا، ختم ہو چُکا۔ ماں، بیٹا بھوک، پیاس سے بے حال ہیں۔ ماں کو اپنی تو فکر نہیں، لیکن بھوکے، پیاسے بچّے کی بے چینی پر ممتا کی تڑپ فطری اَمر ہے، لیکن اس لق و دق صحرا میں پانی کہاں…؟
جوں جوں لختِ جگر کی شدّتِ پیاس میں اضافہ ہو رہا تھا، ممتا کی ماری ماں کی بے قراری بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ اسی حالتِ اضطراب میں قریب واقع پہاڑی،’’صفا‘‘پر چڑھیں کہ شاید کسی انسان یا پانی کا کوئی نشان مل جائے، لیکن بے سود۔ تڑپتے دِل کے ساتھ بھاگتے ہوئے ذرا دُور، دوسری پہاڑی’’مروہ‘‘پر چڑھیں، لیکن بے فائدہ۔اس طرح، دونوں پہاڑیوں کے درمیان پانی کی تلاش میں سات چکر مکمل ہونے کے بعد ایک چشمہ ابلتا دیکھا۔ اللہ نے اس تڑپ کی لاج رکھ لی اور تاقیامت اس کا فیضان جاری فرمادیا۔
خلاصۂ کلام:
حالات حاضرہ کے تناظر میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم کردارِ ابراہیمی کو اپنائیں! سیرت اسماعیل کو حیات فانی کا جزو لاینفک بنائیں! توحید کے عقیدۂ خالص کو جی جان کے ساتھ قبول کر نے اور اس پر ثابت قدم رہنے کا عہد کریں!خانگی و خاندانی معاملات میں قانون الہی کی بالادستی تسلیم کریں! اور ہزار رکاوٹوں اور آزمائشوں کے باوجود حکم شرعی پر عمل پیرا ہوکر حمیت دینی کا ثبوت پیش کریں۔
آگ ہے، اولاد ہے، ابراہیم ہے، نمرود ہے
کیا کسی کو، پھرکسی کا، امتحاں مقصود ہے
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ