شانِ رسالت ﷺ میں گستاخی ناقابل برداشت
حالات حاضرہ

ناموس رسالت پر آنچ نہیں برداشت کرسکتا مسلمان

مسلمانوں کی دل آزاری اورملک کی گنگا جمنی تہذیب کو ختم کرنے اور نفرت کو پروان چڑھانے کی غرض سے فرقہ پرست طاقتوں نے ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس اور ماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی شان میں گستاخیاں کی ہیں، اس گستاخی کی وجہ سے پوری دنیا کے مسلمان اور سیکولر انسان ہیجان اور غصے میں مبتلا ہیں۔

ہندوستان میں مسلمانوں پر ڈھائے گیے ظلم وستم کی لمبی داستان ہے، ان کی عزت وآبرو پر حملے عام ہیں، ماب لنچنگ کے ذریعہ قتل کے شکار بھی مسلمان ہوتے رہے ہیں، ان کے گھروں پر بلڈوزر چلایاگیا اور چلایا جا رہا ہے، ان حالات و واقعات پر مسلمانوں نے تھوڑے بہت احتجاج کے علاوہ عموما صبر سے کام لیا، تحمل اور برداشت کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا، ہمارے اس برداشت کو ہماری کمزوری سمجھی گئی، بعض مسجد پر بھی بلڈوزر چلائے گیے، مسلمانوں نے ان سب کو برداشت کر لیا، لیکن فرقہ پرستی کی یہ آگ اب ناموس رسالت اور تقدس عائشہ ؓ تک پہونچ گئی ہے۔

یہ معاملہ ایسا ہے جس نے مسلمانوں کے لیے صبر وتحمل کے سارے بند توڑ دیے ہیں، پھر بھی مسلمانوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لیا، حالاں کہ یہ ہماری غیرت وحمیت پر حملہ ہے، ایمان وعقیدہ پر حملہ ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہماری زندگی کا ما حصل اور ہمارے ایمان کا حصہ ہے، کوئی مسلمان اس وقت تک مسلمان ہو ہی نہیں سکتا، جب تک اس کے دل میں دنیا کی ساری چیز، حتی کہ جان ومال والدین اور اولاد سے آقا صلی اللہ علیہ وسلم محبوب نہ ہوں، صحابہ کرام نے اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھا تھا، اسی وجہ سے وہ اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر پروانوں کی طرح آپ پر نثار ہونے کا جذبہ رکھتے تھے،موقع آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ڈھال بن جاتے تھے، محبت کی ایسی مثال دنیا میں کسی اور شخص کے لیے دیکھنے میں نہیں آئی۔

ناموس رسالت اور محبت نبوی کی اسی اہمیت کی وجہ سے بھاجپا کے ترجمان کی اس گھنونی حرکت اور جاہلانہ تبصرہ کی وجہ سے ہندوستانی مسلمان کے ساتھ پورا عالم عرب کھڑا ہو گیا ہے اور جو لوگ اس حرکت پر تالیاں پیٹ رہے تھے وہ سوچنے پر مجبور ہو گیے ہیں کہ عرب ممالک سے جو تجارتی تعلقات ہیں ان کا کیا ہوگا۔

کئی ملکوں کے تاجروں نے ہندوستانی مصنوعات کو سوپر مارکیٹ سے سمیٹ کر رکھ دیا ہے، اور وہ اس کے لیے تیار نہیں ہیں کہ ہم ہندوستانی مصنوعات کی خریدوفروخت کرکے ایک ایسے ملک کو نفع پہونچائیں جہاں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس پر مسلسل حملے ہو رہے ہیں اس سلسلے میں مسقط عمان کے مفتی اعظم الشیخ احمد بن حمد الخلیلی کا کردار سب سے نمایاں رہا ہے، واقعہ یہ ہے کہ ان کی سخت مذمت اور پوری امت مسلمہ سے ہندوستانی جارحیت کو روکنے کے لیے مداخلت کی اپیل کی وجہ سے عرب حکمراں جاگ پائے، ورنہ وہ تو اپنے ملک پر حملے کے وقت بھی سوتے ہی رہتے ہیں۔

کئی ملکوں میں یہ بھی بات چل رہی ہے کہ وہاں سے ہندوستانی ملازمین کو واپس بھیج دیا جائے اگر ایسا ہوتا ہے تو ملک کو دُہری معاشی مار برداشت کرنی ہوگی، ایک تو جوزر مبادلہ ان حضرات کے ذریعہ ملک میں آتا ہے وہ بند ہوجائے گا، اور دوسرے پہلے سے بے روزگاری کی مار سہہ رہے اس ملک میں بے روزگاروں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوگا، جس سے ملک میں غریبی بڑھے گی اور دوسرے مسائل پیدا ہوں گے، اس لیے حکومت کو فوری اقدام کرنے چاہیے، صرف مجرمین کو پارٹی سے نکال دینا کافی نہیں ہے اور پھر دہلی پولیس نے اس ملعونہ کو جو سیکوریٹی دی ہے اس سے اس کو نکالے جانے کا احساس ختم ہو گیا ہے۔

پارٹی سے نکالا جانا اندرونی سزا تو ہو سکتی ہے، لیکن یہ دوسروں کے لیے نا قابل قبول ہے، اس لیے ضروری ہے کہ توہین رسالت کرنے والے دونوں مجرمین کو ایسی سزا دی جائے کہ آئندہ کوئی اس کی جرأت نہ کر سکے۔ اس کے لیے ہندوستانی قانون میں تبدیلی کرنی ہو تو حکومت کو کرنی چاہیے؛ تاکہ مذاہب کے بڑوں کے ناموس کی حفاظت کی جا سکے ، مسلمان کو تو یہ قرآنی حکم ہے کہ معبود ان باطل کو برا نہ کہو ، اس دل گداز اور قلب کو پارہ پارہ کردینے والے واقعہ پر بھی مسلمانوں نے ان کے مذہبی سر براہوں کو بُرا بھلا نہیں کہا۔

اس حکم کو دوسرے مذاہب کے لوگ بھی مانیں تو اس قسم کے افسوسناک واقعہ سے بچا جا سکتا ہے، لیکن جن کی جڑیں نفرت کے کھاد سے ہی مضبوط ہوتی ہیں وہ بھلا کیوں اس پر عمل کریںگے ۔ اس کی وجہ سے جو ملک کی بدنامی ہو ئی ہے اورعرب ملکوں سے رشتے کمزور ہوئے ہیں، اس کی بھرپائی میں اب برسوں لگ جائیں گے۔

مسلمانوں کے لیے کرنے کا کام یہ ہے کہ وہ ایف آئی آر درج کرائیں، حکومت کے متعلقہ افسران کو میمورنڈم دیں اور ضرورت محسوس ہوئی تو اکابرین امارت شرعیہ سے مشورہ کر لیں، سڑکوں پر نکلنے سے احتراز کریں اور بغیر قائد کے مشورے کے کچھ نہ کریں۔